’’مسکان‘‘ بارش کا پہلا قطرہ، بھارتی خواتین سڑکوں پر

بھارتی سکولوں میں حجاب پر پابندی کیخلاف مسکان کے احتجاج نے بھارتی خواتین میں نئی روح پھونک دی، بھارتی پارلیمنٹیرین اور ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت نے بھی اس پر اعتراض کیا جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی اس معاملے پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔
کولکتہ میں گزشتہ روز سیکڑوں خواتین اور طلبا نے حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی اور سڑکیں بلاک کر دیں، ششی تھرور کا کہنا تھا کہ بھارت میں مذہبی لباس پر پابندی لگانے والا کوئی قانون نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت میں ایسا کوئی قانون نہیں جو مذہبی لباس پر پابندی عائد کرے، جیسے سکھوں کی پگڑی یا مسیحی افراد کے گلے میں صلیب ڈالنا یا پیشانی پر تلک لگانا، یہ سب چیزیں فرانس کے سرکاری اسکولوں میں منع ہیں لیکن بھارت میں ان سب چیزوں کی اجازت ہے۔
اداکارہ شبانہ اعظمی کا مسکان کی جرات کو سلام
بھارت میں کھڑے ہونے والے اس تنازع پر نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا، ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا بھارتی رہنماؤں سے کہنا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو سماجی سطح پر دبانے کو کوششوں اور اقدامات کو روکیں۔
کرناٹک جہاں 12 فیصد آبادی مسلمان ہے اور ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت ہے وہاں ریاستی حکومت کا ایک حکم میں کہنا ہے کہ طلبہ کو اسکولوں کے وضع کردہ ڈریس کوڈ پر عمل کرنا چاہئے۔
بھارت کے ٹیکنالوجی کے مرکز بنگلور میں انتظامیہ نے گزشتہ روز اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ارد گرد احتجاج پر دو ہفتوں کے لیے پابندی لگا دی ہے۔