الیکشن 2024: کونسی خواتین رہنما اسمبلی کا حصہ نہ بن سکیں؟

پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات نے بڑے بڑے برجوں کو اُلٹ دیا ہے، الیکشن نتائج کو تاریخ کا بڑا سرپرائز قرار دیا جا رہا ہے، ان انتخابات میں خواتین امیدواروں کے حوالے سے مسلسل بحث ہوتی رہی۔ پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ خواتین کو ٹکٹس دے کر باقی جماعتوں کے مقابلے میں سر فہرست رہی لیکن اس کے باوجود کئی خواتین رہنماؤں سمیت کارکنان بھی اسمبلی کا حصہ بننے سے محروم رہے۔پی ٹی آئی کی کئی خواتین کو الیکشن سے قبل ہی سیاست چھوڑنا پڑی جبکہ کچھ الیکشن لڑ کر ہار گئیں، ان میں وہ خواتین کارکنان بھی شامل تھیں جو نامساعد حالات کے باوجود الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہوئیں اور مرد امیدواروں کا مقابلہ کیا لیکن جیت نہ سکیں، چند خواتین کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ وہ الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں اتریں گی تاہم انہوں نے دلچسپی نہیں دکھائی۔پی ٹی آئی کی جنرل نشستوں پر کئی خواتین کانٹے دار مقابلے کے بعد کامیاب قرار پائی ہیں۔ ان میں حافظ آباد این اے 67 سے انیقہ مہدی نے دو لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ این اے 185 سے زرتاج گل بھی کامیاب ہوئیں۔ اسی طرح این اے 30 پشاور سے شاندانہ گلزار نے بھی میدان مارا، این اے 119 سے ن لیگ کی مریم نواز بھی قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئیں، مجموعی طور پر چار سیاسی جماعتوں سے 12 خواتین اپنے مخالف مضبوط ترین امیدواروں سے الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کا حصہ بنی ہیں۔تین خواتین ایسی تھیں جو الیکشن سے پہلے ہی سیاست اور اپنی جماعت سے الگ ہو گئی تھیں ان میں شیریں مزاری، مسرت جمشید چیمہ اور بیرسٹر ملیکہ بخاری شامل ہیں، ان خواتین سیاستدانوں کے علاوہ چند ایسی متحرک کارکنان بھی تھیں جن کے اسمبلی کا حصہ بننے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ان میں خدیجہ شاہ، جوشیلی کارکن صنم جاوید اور کارکن طیبہ راجہ شامل ہیں، بونیر کے پی کے 25 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سویرہ پرکاش جنرل نشست پر الیکشن لڑ رہی تھیں لیکن وہ بھی اسمبلی جانے کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہیں۔خواتین سیاسی ورکرز کے علاوہ خواتین سیاستدان اس بار انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں جو فارم 47 کے مطابق اپنی نشست ہار چکی ہیں۔ اس بار پورے ملک کی نظریں این اے 130 میں یاسمین راشد اور میاں نواز شریف کے مقابلے پر تھیں لیکن یاسمین راشد اب تک کے نتائج کے مطابق اس حلقے میں ہار گئی ہیں۔ این اے 71 میں مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ریحانہ امتیاز ڈار کا مقابلہ بھی مضبوط تصور کیا جا رہا تھا تاہم ریحانہ امتیاز ڈار اسمبلی جانے والوں میں شامل نہیں ہوسکیں۔این اے 64 گجرات سے چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ قیصرہ الٰہی اور انہی کے فیملی ممبر چوہدری سالک حسین کا مقابلہ تھا تاہم قیصرہ الٰہی فارم 47 کے مطابق ہار گئی ہیں۔ اسی طرح سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی این اے 151 ملتان سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہی تھی‍‍ں تاہم وہ انتخابات ہار چکی ہیں۔این اے 118 سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ عالیہ حمزہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کے مقابلے میں الیکشن ہار چکی ہیں۔ اسی طرح سب سے زیادہ بولنے والی سائرہ بانو بھی اس بار اسمبلی میں دکھائی نہیں دیں گی۔ این اے 210 سے جی ڈی اے کی سائرہ بانو بھی اس بار قومی اسمبلی کی نشست ہار چکی ہیں۔پی ٹی آئی کی دیگر خواتین رہنماؤں میں ایمان طاہر، کنول شوزب، عذرا مسعود، کوثر بھٹی، سیمابیہ طاہر اور عارفہ نذیر جٹ شامل ہیں جو اس بار اسمبلی جانے سے محروم رہی ہی‍ں۔اسی طرح دیگر جماعتوں کی خواتین امیدواروں میں این اے 24 سے شازیہ تہماس، این اے 38 سے مہر سلطانہ، این اے 177 سے شیر بانو بخاری سمیت کئی دیگر خواتین رہنماء بھی اس بار اسمبلی جانے سے محروم رہیں۔فافن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین امیدوار قومی اور و صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر نامزد 6037 امیدواروں کا 4.6 فیصد ہیں۔ تاہم اب تک کے نتائج کے مطابق چار سیاسی جماعتوں کی 12 خواتین امیدوار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے منتخب ہوچکی ہیں۔

Related Articles

Back to top button