حکومت 6 ماہ بعد بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام کیوں؟


عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی کی چکی تلے پسنے والے عوام کو ریلیف دینے کا دعوی ٰکرنے والی پی ڈی ایم حکومت چھ ماہ گزرنے کے باوجود عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے، عوام کو سبز باغ دکھانے والی حکومت کے سائے تلے مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ڈالر کبھی کنٹرول میں آتا ہے اورکبھی قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہی حال پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کا بھی ہے جن میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہو پائی۔ مہنگائی سے پریشان عوام اب بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے جو وعدے کیے تھے، وہ کب پورے ہوں گے؟

یاد رہے کہ رواں برس 10 اپریل کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونا پڑا، تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں عمران خان کے خلاف 174 ووٹ پڑے تھے یوں 11 اپریل 2022 کو مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف 174 ووٹ لے کر 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔عمران خان کیخلاف تحریک اعتماد کامیاب ہونے سے قبل حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم دیا گیا اور ایک ہی مہینے میں دو لانگ مارچ ہوئے جس میں سے ایک پیپلز پارٹی کا تھا، جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری نے کی اور دوسرا مہنگائی مکاؤ مارچ مسلم لیگ ن کی جانب سے کیا گیا جس کی قیادت مریم نواز اور حمزہ شہباز نے کی۔ دونوں جماعتیں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی بڑھانے کے معاملے پر شدید تنقید کر رہی تھیں، موجودہ حکومتی اتحاد کے تحت بننے والی کابینہ نے 19 اپریل 2022 کو حلف لیا اور اب اس کے چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں، کابینہ ڈویژن کے مطابق موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں اس وقت 34 وفاقی وزرا، سات وزیر مملکت، چار مشیران اور 29 معاون خصوصی شامل ہیں، اب ایک نظر ملکی معیشت پر بھی ڈالتے ہیں کہ اس وقت معاشی حالات کیا ہیں اور موجودہ حکومت کے آنے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملا یا نہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت 10 اپریل کو ختم ہوئی تھی، پی ٹی آئی حکومت کے دوران مارچ 2022 میں ادارہ شماریات کے مطابق افراط زر کی شرح 9.1 فیصد تھی، تاہم ستمبر 2022 میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا اور یہ 23.2 فیصد ہو چکی ہے۔موجودہ حکومت کے چھ ماہ کے دوران ہی اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.3 فیصد تک آن پہنچی، جو 1975 کے بعد بلند ترین شرح تھی یہاں ہم اشیائے خوردونوش کے نرخوں کا تقابلی جائزہ لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ عوام پر مہنگائی کا کیا اثر ہوا یا انہیں کہیں کچھ ریلیف بھی ملا ہے۔

آٹے کا 20 کلو کا تھیلہ مارچ میں 1100 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جبکہ ستمبر میں اس کی قیمت کم ہو کر 1095 روپے ہو گئی ہے، ایک کلو باسمتی چاول جو مارچ میں 112 روپے کلو تھا، اب اس کی قیمت 142 روپے کلو ہو چکی ہے۔ پانچ کلو آئل جو مارچ میں دو ہزار 287 روپے میں فروخت ہو رہا تھا، اب اس کی قیمت ستمبر میں دو ہزار 849 روپے ہو چکی ہے، گھروں میں پکنے والی دالوں کی قیمت میں واضح طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، دال مسور جو مارچ میں 223 روپے فی کلو دستیاب تھی، اب اس کی قیمت بڑھ کر 357 روپے فی کلو ہو چکی ہے۔ دال مونگ کی قیمت 165 روپے فی کلو سے بڑھ کر 241 روپے، دال ماش کی قیمت 289 روپے سے بڑھ کر 418 روپے اور دال چنا کی قیمت 179 روپے سے بڑھ کر 261 روپے ہو چکی ہے، چینی کی قیمت 89 روپے فی کلو سے بڑھ کر 93 روپے فی کلو ہوگئی۔

اسی طرح یکم اپریل کو اوگرا کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت 189 روپے تھی جبکہ 12 اکتوبر کو اس کی قیمت 222 روپے ہے، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق آٹھ اپریل 2022 کو ڈالر کا ریٹ 184 روپے تھا اور سات اپریل کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق زر مبادلہ کے ذخائر 17.48 ارب ڈالر تھے۔ 20 اکتوبر کو ڈالر ریٹ 220 روپے اور 13 اکتوبر کو پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 13.25 ارب ڈالر ہوگئے ہیں، اس چھ ماہ کے عرصے کےدوران ڈالر240 روپے تک بھی پہنچا اور ان ہی چھ ماہ کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 1.16 ارب ڈالر کی قسط بھی وصول ہوئی۔

بجلی کے بلوں سے سلیب سسٹم کو ختم کر دیا گیا جس کے بعد پہلے یونٹ کے استعمال سے ہی بل 21 روپے 47 پیسہ فی یونٹ آ رہا ہے، اس سے قبل سلیب سسٹم تھا جس میں پہلے 100 یونٹس، 100 سے 200 اور 200 سے زائد یونٹس پر مختلف چارجز لاگو ہوتے تھے۔

Related Articles

Back to top button