کیا عمران کو بھی فوجی عدالت کا سامنا کرنا ہوگا؟

فوجی و سیاسی قیادت کی جانب سے سانحہ 9 مئی میں ملوث شرپسندوں کیخلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی کے فیصلے کے بعد عمران خان کا بچنا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ناقدین کے مطابق فوجی عدالتوں میں جب عمرانڈوز کا ٹرائل شروع ہو گا تو یہ سلسلہ ملزموں سے ہوتا ہوا سہولتکاروں اور بالآخر شرپسندی کے سرغنہ تک لازمی پہنچے گا۔ اسی لئے عمران خان عسکری املاک پر ہونے والے جلاؤ گھیراؤ کا الزام بھی گھر والوں یعنی خفیہ ایجنسیوں پر عائد کر رہے ہیں لیکن ان کا ایسی الزام تراشیوں سے بچنا نا ممکن دکھائی دیتا ہے قانونی ماہرین بھی اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔

عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اس کیس میں عمران خان کو بھی شریکِ جرم سمجھا جاسکتا ہے اور ان کا ٹرائل بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ اس میں جرم کی حوصلہ افزائی جیسے جرائم شامل ہیں۔اُن کے بقول سپریم کورٹ سے رہائی کے بعد اگر عمران خان ان تمام واقعات کی مذمت کرتے اور ان سے لاتعلقی اختیار کرتے تو وہ ان الزامات سے بچ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ان تمام باتوں سے انکار کیا ہے۔ لہذا اس صورتِ حال میں ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی کے داماد علی افضل ساہی کے خلاف بھی فیصل آباد میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے دفتر پر حملے کا الزام ہے اور ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے لہذا ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو، جناح ہاؤس لاہور یعنی کور کمانڈر ہاؤس، پاک فضائیہ اور دوسری فوجی سرکاری املاک پر حملہ کرنے والا فوجی ہو یا سول، حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ وہ سب آرمی ایکٹ کی زد میں آئیں گے جنہوں نے 9 اور 10 مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ریڈیو پاکستان سمیت سرکاری املاک، فوجی تنصیبات کو نذر آتش کیا ان کو تباہ و برباد کیا نقصان پہنچایا۔ قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے شرپسندوں کو پاکستان آرمی ایکٹ، پاکستان نیوی ایکٹ، پاکستان ایئرفورس ایکٹ کے تحت فوری سماعت کی خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ملزمان کو فوری سماعت کی آرمی، نیوی، ایئرفورس ایکٹ کے تحت قائم کی گئی عدالت میں وکیل پیش کرنے کی اجازت ہوگی۔ آرمی ایکٹ مجریہ 1952 کی سیکشن 4 کے تحت پاکستان آرمی ایکٹ آرمز اٹھانے والے پاکستان کے خلاف جنگ مسلط کرنے والے پاکستان کی مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ آور ہونے والے یا پاکستان میں سول اور فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں پر پاکستان آرمی ایکٹ پاکستان نیوی ایکٹ پاکستان ایئرفورس ایکٹ کا نفاذ ہوگا۔فوری سماعت کی فوجی عدالت میں پیش ہونے والا کوئی بھی وکیل موجودہ سیشن کورٹ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے کیس کو طول نہیں دے سکے گا اور ایسا کرنے کی کوشش بھی قابل گرفت ہوگی۔ ملک میں آرمی ایکٹ کے تحت سزا 7 سال سے 14 سال تک کی ہوگی اور بڑی سزا سے پہلے متعلقہ ملٹری کورٹ چیف سے کنفرم کرائے گی اور اس کے بعد سزا کا اعلان کرے گی۔

واضح رہے کی عسکری قیادت کے فیصلے کے بعد پنجاب کی نگران حکومت نے آرمی تنصیبات اور املاک پر حملہ کرنے والے بلوائیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے فیصلے کی منظوری دے دی ہے‘کابینہ نے شرپسندوں کے خلاف مقدمات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تشکیل دینے کی منظوری دیتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کے اصل ذمہ داروں کی شناخت کے لیے تمام سکیورٹی اداروں کے باہمی اشتراک پر زور دیا۔نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے ہدایت کی کہ ملزموں، سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈز تک پہنچنے کے لیے موثر میکانزم وضع کیا جائے

Related Articles

Back to top button