کیا بھٹو رجیم چینج کی طرح ایرانی رجیم بھی بدل جائے گا ؟

امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران میں رجیم چینج کی سازش پہلی مرتبہ نہیں رچائی جا رہی۔ 1970 کی دہائی میں پاکستانی نیوکلیئر بم کے بانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اقتدار سے بے دخل کر کے تختہ دار پر چڑھانے میں مرکزی کردار امریکہ نے ہی ادا کیا تھا۔ اسلامک بم کی بنیاد رکھنے والے بھٹو کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے ایک عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دی تھی جس پر عمل بھی کیا گیا اور رجیم چینج کے بعد بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ موجودہ ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں انہیں سال 1979 کے ’پاکستانی پیپرز‘ کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ دراصل امریکہ آخر ایران سے چاہتا کیا ہے۔ یہ وہی پیپرز ہیں جو تہران میں امریکی سفارت خانے سے ان ہزاروں دستاویزات کے ساتھ برآمد ہوئے تھے جو پاسداران انقلاب کے نوجوانوں نے ایمبیسی پر قبضہ کرتے وقت محفوظ کر لیے تھے۔ اس واقعے کو آج 46 سال گزر چکے ہیں۔ امام خمینی کے انقلاب ایران سے پہلے شاہ ایران اس خطے میں امریکہ کے ’چوکیدار‘ کا کردار ادا کرتا تھا۔ لیکن ’شاہ ایران‘ کے زوال اور بادشاہت کے خاتمے کے بعد یہ کام کافی حد تک پاکستانی فوجی ڈکٹیٹرز نے انجام دیا۔ اس کی بڑی ایک وجہ روس کی افغانستان میں مداخلت بھی تھی۔
تاہم مظہر عباس کہتے ہیں کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر کے باعث امریکہ کا اس خطے میں بظاہر کوئی قابلِ اعتماد ’ساتھی‘ نہیں، خاص طور پر بھارت کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ موقف کے بعد امریکہ کو اس وقت کسی ایسے ہی ’چوکیدار‘ کی تلاش ہے جیسا کردار رضا شاہ پہلوی نے انجام دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے ایران میں ’رجیم چیلنج‘ کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ ایران میں کوئی تبدیلی آتی ہے یا نہیں مگر اس چیز کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ اب کبھی اس شاہ ایران والے میں واپس جا سکتا ہے۔
امریکہ کا اس وقت سارا زور ایران کا ’نیو کلیئر‘ پروگرام ختم کرنے پر ہے مگر ایران اور امریکہ مذاکرات کو اسرائیلی حملے نے ناکام بنا دیا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ ایسا امریکہ اور اسرائیل کی ملی بھگت سے ہوا مگر جتنا زوردار جواب ایران نے دیا ہے، اس نے اسرائیل اور امریکہ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک ملک جو چالیس سال سے اقتصادی پابندیوں میں رہ رہا ہے، اس کا اسرائیل پر جوابی حملے کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنا ہی دنیا کیلئے حیران کن ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایران میں بڑی تعداد میں سیاسی قوتیں ہیں جو موجودہ رجیم کے خلاف ہیں، مگر اس وقت ’ایران‘ ایک ہے اور عوام خامنہ ای کے پیچھے کھڑے ہیں خصوصا جب تک جنگ جاری ہے۔ سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ 1979ءکے پاکستانی پیپرز میں اس وقت خاصا دباؤ پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام ترک کرنے پر نظر آتا ہے۔ جب بھٹو نے امریکہ کا دباؤ لینے سے انکار کیا تو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے ذریعے ان کی حکومت کو برطرف کر کے گرفتار کر لیا گیا اور بات رجیم چینج تک چلی گئی۔
مظہر عباس بتاتے ہیں کہ پی این اے کی جانب سے چلائی گئی بھٹو مخالف تحریک کے دوران اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے ایک ٹیلی گرام بھیجا گیا جس میں لکھا گیا کہ ’دی پارٹی از اوور‘۔ بہرحال بھٹو نے اس ٹیلی گرام کا جواب اپنی زوردار تقاریر میں دیا، جو انہوں نے پارلیمنٹ اور راجہ بازار راولپنڈی میں کیں۔ انکا کہنا تھا کہ "مائی پارٹی از ناٹ اوور”۔ بہرکیف امریکہ کی رچائی سازش کامیاب ہو گئی اور بھٹو رجیم چینج ہو گیا، یہاں تک کہ بھٹو کو پھانسی بھی دے دی گئی، لیکن پاکستانی نیوکلیئر پروگرام اتنا آگے جا چکا تھا کہ ملٹری ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی بھی جرات نہ تھی کہ وہ اسے رول بیک کر پاتا۔
مظہر عباس بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے کے پاکستان پر دوبارہ نیوکلیئر پروگرام ترک کرنے کے لیے دباؤ آتا، روس افغانستان پر حملہ آور ہو گیا یوں پاکستان امریکہ کی مجبوری بن گیا۔ امریکی سی آئی اے نے روس مخالف افغان مجاہدین کی تربیت اور فنڈنگ کی ذمہ داری آئی ایس آئی کو سونپ دی جس کے بعد امریکی ڈالرز کی ریل پیل ہو گئی اور امریکہ کی توجہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام سے ہٹ گئی۔
دوسری جانب ایران میں امام خمینی کے انقلاب کے بعد کئی سرکردہ ایرانی رہنما اندرونی جنگ یا اختلافات کا شکار ہو گئے، یہاں تک کہ ایرانی پارلیمنٹ بھی بم دھماکے سے اڑا دی گئی جس میں سپیکر ہاشمی رفسنجانی جیسے رہنما شہید ہو گے۔ اس دوران بائیں بازو کے پارٹی رہنما بھی ٹارگٹ ہوئے حالانکہ انقلاب ایران کی ابتدا انہوں نے ہی شاہ کے خلاف بغاوت سے کی تھی۔ مگر جب ایران اور عراق کی جنگ چھڑ گئی تو ایک بار پھر ایرانی قوم متحد ہو گئی، جنگ سات سال جاری رہی۔ تاہم ایران بالآخر اس بحران سے بھی نکل آیا۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایران میں پاسدارانِ انقلاب اور ایرانی رجیم مخالف مجاہدین خلق کی آپسی جنگ پاکستان تک پہنچ گئی اور یہاں ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی۔ ایران امام خمینی کے زمانے سے ’مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل‘ کا نعرہ لگاتا رہا ہے مگر فلسطینی کاز اس وقت کمزور پڑگیا جب روس تقسیم ہوا اور دنیا ایک سپر پاور امریکہ کے زیر اثر آ گئی۔ بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ تمام ممالک جو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے ایک ایک کر کے تباہ کر دئیے گئے اور ایران پر بھی امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے سخت پابندیاں لگادیں جو آج تک موجود ہیں۔ انہی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ شام، لیبیا، لبنان، عراق میں ہونے والی تباہی نے فلسطینی کاز کو شدید نقصان پہنچایا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں حماس اور حزب اللہ کے سرکردہ رہنماؤں کی شہادت نے اسرائیل مخالف مزاحمت کمزور کر دی جس کے نتیجے میں غزہ میں اسرائیل کی’’ننگی جارحیت‘‘ جاری ہے۔ تاہم ایک بڑی اور مثبت تبدیلی سعودی عرب اور ایران کی قربت ہے جس کا بڑا کریڈٹ چین کو جاتا ہے۔ چین نے افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی پاکستان کے ساتھ معاملات بہتر بنانے پر آمادہ کیا ہے۔ اسی لیے اب چین اور پاکستان نے سی پیک پراجیکٹ افغانستان تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا جنگ میں ایران اور اسرائیل سے سمجھدار کیسے نکلے ؟
مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے امریکہ کو پریشان کیا ہوا ہے لہٰذا اسرائیل کے اچانک ایران پر حملے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ فلسطین کی حمایت کرنے والے تمام تر عرب ممالک تباہ کرنے کے بعد اب واحد رکاوٹ ایران ہے، مگر ایران نہ لیبیا ہے نہ شام۔ اگر ایسا ہوتا تو انقلاب ایران 45 برس تک برقرار نہ رہ پاتا، خاص طور پر دنیا میں تنہا ہو جانے کے باوجود بھی۔ یہ معاملہ پاکستان کیلئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ اور اسکے بعد امریکی صدر کا کردار حوصلہ افزا ہے، مگر وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اس لیے ہمیں احتیاط سے چلنا ہو گا۔ ایران اور اسرائیل جنگ ختم کرانے میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اس کا دار و مدار چین اور سعودی عرب کے موقف پر ہے۔ امریکہ سے ہمارے اچھے تعلقات کا خواب اپنی جگہ لیکن ہمیں خطے کے ’چوکیدار‘ کا گندا رول قبول نہیں کرنا چاہئے۔ خاص طور پر چین کی موجودگی میں۔ ویسے بھی امن جنگ سے بہتر ہی ہوتا ہے۔