کیا سپریم کورٹ کے عمراندار ججز کے خلاف ریفرنس دائر ہونے والا ہے؟

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے عمرانڈو ججز پر شکنجہ کسنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں پر جہاں ایک طرف سپریم کورٹ کے دو یوتھیے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کیخلاف ریفرنس لانے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے وہیں دوسری جانب پارلیمنٹ بارے متنازع ریمارکس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی پارلیمنٹ میں طلبی کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں۔ مبصرین کے مطابق حکومت کی جانب سے یوتھیے ججز کو قابو کرنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات سے حکومت اور عدلیہ کے مابین محاذ آرائی اور کشیدگی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز پر ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ رانا ثنا اللہ کے مطابق سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججز کا بعض معاملات میں ایسا رویہ ہے کہ ان کیخلاف ریفرنس بنایا جا سکتا ہے۔ رانا ثنااللہ نے اپنے موقف کی تائید میں مزید کہا کہ آپ ایسے پروپیگنڈے کا موجب بنیں جوپورے ادارے کوبدنام کرے تو اس کو مس کنڈکٹ سے جوڑا جاسکتا ہے، یہ ججز سپریم کورٹ میں کام چلنے نہیں دے رہے، ہرمعاملے پر اختلاف کرتے ہیں، بائیکاٹ کرتے ہیں یا خط لکھتے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کا پرانا اصول ہم نے تبدیل نہیں کیا بلکہ ججز نے خود تجاویز دیں۔ حکومت پر ہر چیز کا الزام ڈال دیا جاتا ہے، ہمیں گالی دینا بہت آسان ہے۔مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کی تعیناتی اور تبادلوں کے حوالے سے خود فارمولا دیا تھا، اب جب حکومت نے اس کی بنیاد پر آئینی ترمیم کردی تو یہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی جانب عمرانڈو ججز کیخلاف ریفرنسز دائر کئے جاتے ہیں تو اس کے اثرات کیا ہونگے؟ کیا اس پیشرفت سے حکومت اور عدلیہ کے مابین تناؤ مزید بڑھے گا؟ کیا ریفرنسز کے ذریعے یوتھیے ججز کی چھٹی ممکن ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کے مطابق میری تو شروع دن سے یہ رائے ہے کہ ججز کے ریمارکس کو محدود ہونا چاہیے اور جج صاحبان کو اپنے فیصلوں کے ذریعے سے بولنا چاہیے۔رانا ثنااللہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ریفرنس کی بات بنتی نہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بدقستمی کی بات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ ریفرنس کے لیے کوئی مضبوط جواز موجود ہونا چاہیے۔ پارلیمان اور عدلیہ دونوں کو اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔

نامور قانون دان اور جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضٰی کے مطابق غلطی دونوں طرف ہے۔انہوں نے کہا کہ جج صاحب کو ایسے ریمارکس سے گریز کرنا چاہیے تھا اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اس طرح کا جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ عام شخص بات کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ہمارا ہائیکورٹ میں بیٹھا ہوا جج ایسی بات کرے تو یہ سنجیدہ معاملہ بن جاتا ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری طرف اسپیکر قومی اسمبلی کے منصب کا بھی یہ تقاضا تھا کہ وہ ایسی بات کا جواب نہ دیتے۔کامران مرتضٰی نے کہا کہ ججوں کو اپنے فیصلوں کے ذریعے سے بولنا چاہیے اور اس طرح کے ریمارکس سے گریز کرنا چاہیے لیکن یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں کہ جس پر ریفرنس دائر کیا جا سکے۔

دوسری جانب بعض دیگر آئینی ماہرین کے مطابق ہر آئینی ادارے کو اپنی حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہیے، اگر پارلیمان کے اندر ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی تو ججز کو بھی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے بارے میں محتاط انداز سے بات کریں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں اس طرح کے ریمارکس نہیں دیے جاتے جو عدالتی فیصلے کا حصہ نہ ہوں۔

مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ عدلیہ کو اپنے ریمارکس کی بجائے فیصلوں کے ذریعے بات کرنی چاہیے تاہم پاکستان میں عدالتوں سے ایسے ریمارکس آتے ہیں جو میڈیا میں سنسنی پھیلاتے ہیں اور اس طرح کے ریمارکس سے اداروں کے درمیان تناؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کو پارلیمان اور پارلیمان کو عدلیہ کی عزت کرنی چاہیے اور یہ چیز آئین، قانون اور عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے اچھی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے میڈیا کا گلا کیوں گھونٹا؟

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عمرانڈو جج جسٹس محسن اختر کیانی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحانی نتائج روکے جانے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ’عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گرچکے ہیں، عدلیہ کا ستون ہوا میں ہے مگر ہم پھر بھی مایوس نہیں ہیں‘۔ ان ریمارکس پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی جانب سے دئیے گئے ریمارکس پارلیمنٹ پر حملہ ہیں، کسی کو پارلیمان کے بارے میں بیان بازی کا حق نہیں ہے۔

Back to top button