کیا امریکہ عمران کی مدد سے ہمارا نیوکلیئر پروگرام ٹارگٹ کر رہا ہے

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اب یہ تھیوری تیزی سے پھیل چکی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل عمران خان کی مدد سے پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی اسکا نیوکلیئر پروگرام چھیننا چاہتے ہیں۔ یہ بیانیہ بھی مارکیٹ ہو چکا ہے کہ افغان طالبان بھی امریکہ کی خفیہ اور ظاہری امداد پر ہی چل رہے ہیں جنہیں ہر ماہ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ڈالرز پہنچائے جاتے ہیں۔ تحریک طالبان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے پیچھے بھی خفیہ امریکی ہاتھ بتایا جا رہا ہے جو طالبان کو پال کر پاکستان سے امریکی ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے۔

تاہم سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ ہمارے دشمنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک، ایٹمی صلاحیت کے حساب سے ساتواں اہم ملک، میزائل کے حوالے سے واحد اسلامی ملک، اور منظم فوج کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ لہذا پاکستان اپنے دشمنوں میں سے کسی کے لیے بھی تر نوالہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو یہ غلط فہمی ہونی چاہیے۔ روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن نے درست ہی کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ساس بہو والے ہیں۔ کچھ لوگ ان تعلقات کو رولر کوسٹر سے بھی تشبیہ دیتے ہیں یعنی تیزی سے اوپر اور نیچے جانے والا جھولا جو کبھی آپ کو آسمان میں اڑاتا ہے اور کبھی جھٹکے سے زمین پر لے آتا ہے۔ صدر بش اور جنرل مشرف دوست تھے، ،ریگن اور جنرل ضیاء کی گاڑھی چھنتی تھی، ایوب خان بھی امریکی صدور کے پسندیدہ تھے، مگر جو بائیڈن نے پاکستان کے ساتھ مکمل سرد مہری رکھی، کلنٹن کو بھی غیر جمہوری رویوں اور انتہا پسندانہ کارروائیوں پر تحفظات تھے مگر کلنٹن نے کارگل کی جنگ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کیا۔

صدر ٹرمپ چند دنوں میں عنان اقتدار سنبھالیں گے۔ ریاست پاکستان اور عوام دونوں مختلف ذہنی توقعات اور تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سہیل وڑائچ کے بقول ہمارے کچھ بھائیوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کے آتے ہی پاکستان کی سیاست میں بھونچال آ جائے گا۔ تاج اچھالے جائیں گے اور تخت الٹ جائیں گے۔ لیکن سمجھ دار سفارت کار ایسا نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں پاکستان کے سیاسی مسائل نہیں ہیں، البتہ صدر ٹرمپ انتخابی مہم میں بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ایک ناکام حکمت عملی اور غیر معمولی سرعت سے کیا گیا جس کے امریکہ اور افغانستان دونوں پر برے اثرات پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس انخلا کو وجہ بنا کر افغان اور شدت پسند طالبان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ یہ امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو لگے کہ پاکستان نے طالبان کی درپردہ مدد کی ہے۔ لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان نے دونوں طرح کے حالات کی تیاری کر لی ہے۔ دونوں طرح کے حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اس پر ممکنہ تمام امکانات کا جائزہ لیا جا چکا ہے اور ہر طرح کی صورت حال سے نمٹنے کی تیاری مکمل ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ہمارے انصافی بھائی شدت سے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ادھر ٹرمپ صدارتی گدی پر بیٹھے گا اور ادھر عمران خان کے لیے اڈیالہ جیل کا دروازہ کھل جائے گا۔ دوسری طرف ریاست نے فارن آفس میں اس مشکل وقت کے لئے اپنے ایک سینئر ساتھی سفیر رضوان شیخ کا انتخاب کیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر مشکل حالات میں ابھی چند روز پہلے امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں لگاتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ ان میزائلوں کی پہنچ اور ہدف اب امریکہ بھی ہوسکتا ہے، یہ بات صریحاً غلط ہے کیونکہ پاکستان نے اپنے اہداف بھارت کی آخری سرحد اور ان کے سمندروں میں موجود ٹھکانوں تک رکھے ہیں، لیکن انکے امریکہ تک پہنچنے والے الزام سے لگتا ہے کہ پاکستان اور چین کی قربت سے ٹرمپ کڑواہٹ کا شکار ہیں۔

سہیل وڑئچ کہتے ہیں کہ دوسری جانب پاکستان بھی اتنا بھولا نہیں کہ بین الاقوامی چالیں نہ سمجھے۔ ایک طرف پاکستان کو فوجی چھائونی سٹیٹ یا عسکری ریاست کہا جا رہا ہے جب کہ دوسری طرف اس کے میزائل پروگرام کی آڑ میں پاکستان کے سرکاری اداروں پر بھی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ اندازہ ہے کہ اول تو بہت جلدی ٹرمپ عمران کا معاملہ نہیں اٹھائیں گے لیکن اگر اٹھ گیا تو پھر ٹرمپ کی طبیعت کے مطابق تجارتی لین دین کی بات ہو سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کو خود بھی ڈیلیں بہت پسند ہیں، پوچھا جائے گا کہ اگر خان  کی رہائی پر غور کرنا ہے تو اس کے بدلے میں پاکستان کو کیا ملے گا۔ 10 ارب ڈالرز اور مفت تیل کے علاوہ اور کون سی سہولتیں دی جائیں گی؟

سہیل وڑائچ یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف کے جدہ جانے کے عوض سعودی عرب نے پاکستان کو مفت تیل اور دیگر کئی مراعات دی تھیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ امریکہ کیا دے گا؟ فرض کریں امریکہ عمران کی رہائی کے بدلے میں کوئی تجارتی ڈیل کرنے کی بجائے پاکستان کا بازو مروڑتا ہے اور اسکے معاشی قرضوں اور بیرونی آمدن کو روکتا ہے تو موجودہ حکمران اس بیانیے کو اپنی مقبولیت کے لئے استعمال کریں گے۔ ویسے بھی اب یہ نظریہ قابل یقین بنتا نظر آتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل عمران خان کی مدد سے پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی اسکا نیوکلیئر پروگرام چھیننا چاہتے ہیں۔

کیا فوج کی مرضی کے بغیر PTI  سے مذاکرات کامیاب ہو پائیں گے؟

سینیئر صحافی کے مطابق دوسری جانب مسلم دنیا میں صدر ٹرمپ کے سب سے قریبی ساتھی سعودی شاہی ولی عہد محمد بن سلمان کا ریاست پاکستان سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان نے اپنی سیاسی مشکل کا اظہار سعودی ولی عہد سے بھی کیا ہو گا اور وہ پاکستان کی اس سفارش کو ٹھکرا نہیں سکے ہوں گے، گویا پاکستان نہ بھوٹان ، نہ عراق اور نہ ہی کینیڈا بننے پر تیار ہے۔ اس لیے کیوبا جیسے دانت اور جنوبی کوریا جیسی مسکراہٹ دونوں کو بروئے کار لایا جائے گا۔

سب سکے نہیں چلتےتو آخری حربہ چین اور روس سے رجوع کرنا ہوگا۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک، ایٹمی صلاحیت کے حساب سے ساتواں اہم ملک، میزائل کے حوالے سے واحد اسلامی ملک، اور منظم فوج کے اعتبار سے تیسرا بڑا ملک ہے، لہٰذا پاکستان کسی کا تر نوالہ نہیں بنے گا۔ ویسے بھی پاکستان کسی کو ٹارگٹ نہیں کر رہا۔ جیو اور جینے دو کے تحت معاملات ہوں تو نہ پاکستان کو گزند آئے گی اور نہ امریکہ کو ذرا سی آنچ بھی لگے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا تب بھی افغانستان سے سہ جہتی حکمت عملی کے تحت نمٹا جائے گا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے مخالف گروپ پاکستان کے ساتھ چلنے کو بے چین ہیں۔ انہیں سبز جھنڈی دکھا کر جب چاہیں افغانستان کے معاشی اور مالی معاملات میں رخنہ ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر معاملہ حد سے بڑھا تو پھر محبت اور جنگ میں فاصلے بھی مٹ سکتے ہیں۔

Back to top button