میڈیا مخالف قانون کے نفاذ کی وجہ مریم نواز ہیں یا عمران خان ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کا رووف کلاسرا نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے جو میڈیا مخالف پیکا قانون منظور کیا ہے اس کا آئیڈیا مریم نواز کی پنجاب حکومت نے دیا تھا جو وفاق سے پہلے یہ قانون پنجاب میں نافذ کر چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد اس گند کا خاتمہ کرنا ہے جو عمران خان کے فالوورز کی جانب سے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے سوشل میڈیا پر ڈالا جاتا ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ عمران خان کے فالوورز نے سوشل میڈیا پر ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف وہ دنگل کھیلا کہ توبہ۔ نواز شریف جب تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تب انہیں احساس ہوا کہ یہ بھی ایک میڈیا ہے جس کے ذریعے ان پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے۔ وہ تب تک صرف روایتی میڈیا کے عادی تھے جنہیں پولیس‘ایف آئی اے‘ مقدمات‘ گرفتاریوں یا اشتہارات کی بندش سے قابو کیا جا سکتا تھا۔ وہ سب لوگ جو اخبار میں لکھ یا ٹی وی پر بول رہے تھے‘ ان کی ایک شناخت تھی‘ ایڈریس موجود تھا اور انہیں ٹریس کر کے حکمران سزائیں دلوا کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرسکتے تھے۔ لیکن یہ سوشل میڈیا ایک ایسی بلا تھی جس کی انہیں سمجھ نہیں تھی۔
آخرکار مریم نواز کو (ن) لیگ کا سوشل میڈیا سیل سنبھالنا پڑا اور انہوں نے مقابلے پر اپنی ٹیمیں اور اپنے بندے لانچ کر دیے۔ پہلے عمران خان اور ان کے حامی اکیلے سوشل میڈیا پر سواری کررہے تھے ‘پھر مریم نواز کی ٹیموں نے انہیں ٹکر دینا شروع کی لیکن عمران خان کو نواز شریف پر یوں برتری حاصل تھی کہ وہ نوجوانوں کو شریف خاندان کے خلاف ابھارنے میں کامیاب رہے۔ وہ جب اس خاندان کو ملک کی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتے تو لوگوں کو ان کی باتوں کا یقین آجاتا کہ یہ جنرل ضیا کے دور سے اقتدار میں تھے۔
کلاسرا یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن چکے تھے‘شہباز شریف تیسری دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب بن چکے تھے‘نواز شریف دو‘ تین بار وزیراعلیٰ بھی رہ چکے تھے اور اب ان کے رشتہ دار اسحاق ڈار اور دیگر بھی کابینہ میں شامل تھے۔ یعنی پورا خاندان اقتدار میں تھا ۔ عمران خان تو اس وقت تک ایک دن بھی اقتدار میں نہیں آیا تھا کہ شریف خاندان اس پر ملک کی بدحالی کا الزام لگا سکتا۔ وہ تب تک بھٹو خاندان پر تبریٰ کر کے سیاست کرتے آ رہے تھے۔ اب عمران خان نے ٹکر دی تو اسکی کمزوریاں اور سکینڈلز کو وہ 1990ء کے دہائی کے وسط میں‘ عمران خان کے سیاست میں آنے کے وقت سامنے لاچکے تھے۔ پاکستانی قوم کو البتہ ان سکینڈلز سے فرق نہ پڑا کیونکہ اس قوم کا مسئلہ اپنے لیڈروں کی ایمانداری اور اخلاقیات کبھی نہیں رہا‘ بس یہ ہے کہ لٹیرا مرضی کا ہو۔ عمران خان بارے وہ سب کچھ ہضم کر چکے تھے۔
رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ یوں سوشل میڈیا پر عمران خان کی سپورٹ روز بروز بڑھنے لگی۔ گالی گلوچ‘ فیک نیوز اور جعلی تصاویر اور وڈیوز کا کلچر بھی پروموٹ ہور ہا تھا۔ سوشل میڈیا نوجوانوں کو لگا کہ وہ جس کو چاہیں گالی دے سکتے ہیں۔ گالیوں کے اس مقابلے کا یہی اصول تھا کہ جو جیتا وہی سکندر۔نواز شریف کی حکومت کو سمجھ نہیں آرہی تھا کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو کیسے روکا جائے۔ آخرکار مریم نواز کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا جس سے عمران خان اور اس کے حامیوں کا سوشل میڈیا پر توڑ کیا جاسکتا تھا۔ اسے سُن کر سب واہ واہ کر اٹھے۔ اصل گیم تو اَب شروع ہوئی تھی۔ خان اور اس کے حامیوں کا توڑ کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد پہلے پنجاب حکومت نے سوشل میڈیا پر دشنام طرازیاں روکنے کے لیے سخت ترین قوانین نافذ کیے جنہیں میڈیا دشمنی قرار دیا گیا اور اب وفاقی حکومت نے بھی ایک نیا پیکا ایکٹ نافذ کر دیا ہے جس کے تحت سکیورٹی اور دیگر اداروں کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ وہ جس کو چاہیں‘ اس قانون کے نام پر اٹھا لیں اور الزام لگا دیں کہ اس نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز دی ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے باوجود پاکستانی معیشت بہتر کیوں ہونے لگی؟
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ جس طرح کا قانون بنایا گیا ہے اور ابھی اس کے جو رُولز بننے جا رہے ہیں اس کے بعد واضح ہے کہ اس کی زد میں وہ لوگ بھی آئیں گے جو ذمہ داری سے صحافت کرتے اور حکومت اور اداروں پر مناسب انداز میں تنقید کرتے ہیں۔ ہر حکومت اس طرح کے قوانین یہی کہتے ہوئے بناتی ہے کہ فیک نیوز کا تدارک کرنا ہے لیکن عموماً فیک نیوز کے نام پر مخالفین سے انتقام لیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں کون یہ کہے کہ فیک نیوز کے خلاف قانون نہ بنائیں‘ اگر کوئی کہے تو حکومت کی بات میں وزن آ جائے گا کہ یہ لوگ فیک نیوز کلچر چاہتے ہیں۔