کیا خیبر پختونخواہ میں بڑھتی دہشت گردی انٹیلیجنس کی ناکامی ہے ؟
شدت پسندوں کی جانب سے کرم ایجنسی میں 38 سے زائد نہتے مسافروں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبے میں دہشتگردی اپنے عروج پر ہے، شدت پسند گروہ دوبارہ متحرک ہو چکے ہیں اور سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں لے علاوہ نہتے عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ گنڈاپور سرکار صرف وفاق پر یلغار کی تیاریوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ صوبائی حکومت نہ تو صوبے میں امن و امان کے قیام میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی عوامی فلاح کیلئے کوئی اقدامات کر رہی ہے بلکہ پی ٹی آئی حکومت صوبے کے وسائل صرف اور صرف اپنی سیاسی سرگرمیوں پر صرف کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا میں حالیہ چند روز کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔مبصرین ان بڑھتے واقعات کو پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جینس نظام کو مزید فعال کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کو بھی بڑھانا ہو گا۔
تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور انتہاپسندی کا ذمہ دار کون ہے اور صوبے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ دہشتگردی کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو انٹیلی جینس کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یوں تو روزانہ کی بنیاد پر درجنوں آپریشن ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ایسی تمام کارروائیاں درست سمت میں نہیں ہو رہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی اتنی بڑی تعداد کا ان علاقوں میں موجود ہونا اور آسانی کے ساتھ کارروائی کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان حقیقت سے نظریں چرانے کے بجائے دیگر پہلوؤں پر بھی غور کرے۔وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیاں کے بعد افغانستان پر الزام عائد کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھی منظم کارروائی کرنا ہو گی۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کو ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو قرار دیتے ہیں۔
اُن کے بقول صوبے اور وفاق کے درمیان تعاون کے فقدان کا بھی دہشت گرد پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور اس ساری صورتِ حال کا ملبہ فوج پر گر رہا ہے۔
جنرل آصف یاسین کے بقول اُن کے دور میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ شدت پسند تنظیمیں بیروزگار نوجوانوں کو 15 سے 20 ہزار ماہانہ پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ معاشی بدحالی بھی شدت پسندی میں اضافے کا باعث ہے۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرنا ضروری کیوں ہو گیا تھا ؟
اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرانے کے لیے قبائلی عمائدین کی مدد لینا پڑ رہی ہے اور کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور مقامی انتظامیہ بے بس نظر آ رہی ہے۔ اگر قبائلی جرگے کے بعد ہی مغویوں کو بازیاب کرانا ہے تو پھر سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اُٹھیں گے۔
اس حوالےسے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ جس وقت پاکستانی فوج 2014 میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کر رہی تھی اس وقت انھیں صرف ایک ہی گروہ کا سامنا تھا لیکن اب حافظ گل بہادر گروپ سمیت دیگر گروہ بھی متحرک ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکی ڈرونز کا خطرہ رہتا تھا اور اگر دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں کو امریکی ڈرونز نے نشانہ بنایا۔ لیکن اب پاکستان کی فوج کو خود ہی ان دہشت گردوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔