کیا واقعی پنجاب حکومت عمران خان کو لاہور منتقل کرنے والی ہے؟

پنجاب حکومت کی جانب سے جیل کے قواعد و ضوابط میں بنیادی تبدیلی کی بعد یوتھیوں نے ایک بار پھر عمران خان کی اڈیالہ جیل راولپنڈی سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقلی کی امیدیں لگا لی ہیں۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جیل قوانین کی تبدیلی سے پنجاب کے دیگر قیدی تو ضرور مستفید ہونگے تاہم بانی پی ٹی آئی عمران خان کا معاملہ دیگر قیدیوں سے مختلف ہے۔ جہاں ایک طرف عمران خان متعدد مقدمات میں سزا یافتہ مجرم ہیں وہیں دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کے خلاف کئی سنگین مقدمات زیر سماعت ہیں ایسے صورتحال میں عمران خان کی فوری اڈایالہ جیل سے اپنے آبائی شہر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقلی کے امکانات معدوم ہیں

خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے جیل کے قواعد و ضوابط میں بنیادی تبدیلی کر دی ہے جس کے بعد ملزموں یا مجرموں کو انکے اقامتی شہر یا ضلع کی جیلوں میں سزا کاٹنےکے لئے رکھا جائے گا، ذرائع کے مطابق جیل قوانین میں تبدیلی کے بعد صوبے کی جیلوں سے نئے احکام کی روشنی میں قیدیوں کی منتقلی شروع ہو چکی ہے، ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت نےجیل کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کرکے سزا یافتہ مجرموں کو انکے اپنے شہر یاقریب ترین جیل میں رکھنےکی پابندی کو ممکن بنا دیا ہے جہاں انہیں سزائےقید بھگتنا ہوگی ذرائع کے مطابق ان قوانین کا کا اطلاق دوسرے سزایافتگان کے ساتھ عمران پر بھی ہوگا۔ تاہم عمران کی لاہور منتقلی سے پہلے کئی معاملات کا جائزہ لینا ہوگا،تاہم مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف اڈیالہ جیل میں دو ٹرائل چل رہے ہیں ایک کیس کے جج اسلام آباد دوسرے کے راولپنڈی سے جاتے ہیں اور دوران ٹرائل ملزم کا عدالت کے سامنے موجود ہونا ضروری ہوتا ہے کامن سینس کی بات ہے یہ دونوں جج پنڈی اسلام آباد سے کیا کوٹ لکھپت جیل جایا کریں گے ؟ یا ٹرائل روک دئیے جائیں گے ؟ یا ختم کر دیئے جائیں گے ؟ ان میں سے جب کوئی بھی نہیں ہو سکتااس لئے عمران خان کی فوری اڈیالہ جیل سے کوٹ لکھپت جیل منتقلی بھی ممکن نہیں۔

خیال رہے کہ پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے تقریبا 4 سو سے زائد رولز میں سے تقریباً سو کے قریب رولز ایسے ہیں جن میں تبدیلی کی جاچکی ہے، ان رولز میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سزا یافتہ قیدیوں کو ان کے آبائی علاقوں میں قائم جیلوں میں سزا پوری کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اس سے قبل جیل رولز کے مطابق جس علاقے میں کوئی جرم سرزد ہوتا تھا تو مجرم کو اس علاقے کی جیل میں سزا پوری کرنا ہوتی تھی۔تاہم اب ان رولز کو تبدیل کر دیا گیا ہے، اب اگر پنجاب کے کسی بھی حصے میں بھی کوئی شخص جرم کرتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اسے سزا ہو جاتی ہے تو ایسے مجرم کو واپس اس کے علاقے میں موجود جیل میں بھیجا جائے گا۔

ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق اب تک ایک ہزار کے قریب ایسے قیدی ہیں جنہیں انہوں کے آبائی علاقوں کی جیل میں منتقل کیا گیا ہے، ان رولز میں تبدیلی کا ایک ہی مقصد ہے کہ خاندان کے دیگر افراد کو مجرمین سے ملاقات میں آسانی ہو۔

صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو ان رولز سے فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ان کی رہائش اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں ہے، اور مختلف مقدمات میں ابھی ان کا ٹرائل جاری ہے، لہذا انہیں اڈیالہ جیل سے ابھی کہیں اور شفٹ نہیں جا سکتا۔ترجمان محکمہ داخلہ کے مطابق مذکورہ رول کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب ایک مجرم کو عدالتوں کی طرف سے سزا ہو جائے اور وہ کسی دوسرے شہر میں ہو تو اس رول کے تحت اس کے آبائی ضلع کی جیل میں شفٹ کیا جاسکتا ہے۔

کیا اپوزیشن کی مجوزہ تحریک ایک نئے مارشل لاء کی راہ ہموار کرے گی ؟

جیل حکام کے مطابق جیل قوانین میں تبدیلی کے بعد محکمہ داخلہ اب جیل میں قیدیوں کو مشقت کے بدلے معاوضہ بھی دے رہی ہے کیونکہ نئے رولز کے تحت اب جیلوں میں قیدی مفت کام نہیں کریں گے، اس حوالے سے مختلف جیلوں میں ان ہاؤس فیکٹریاں بھی قائم کردی گئی ہیں جہاں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ سے مختلف مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں۔’ان مصنوعات کو مارکیٹ میں بیچ کر قیدیوں کو معاوضہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ قیدیوں کو بامشقت سزا پوری کرنے کے بدلے رقم بھی فراہم کی جا رہی ہے۔صرف یہی نہیں محکمہ داخلہ کی جانب یہ رول بھی بنایا گیا کہ جیل میں قید کسی ملزم کے پاس وکیل کرنے کی مالی سکت نہیں تو صوبائی حکومت اسے اپنے خرچ پر وکیل فراہم کرے گی۔’قیدی اس ضمن میں ایک دارخوست سپرنٹینڈنٹ جیل کو دے گا، جس کے بعد اس کیس کی نوعیت دیکھ محکمہ داخلہ اسے مفت وکیل کی خدمات حاصل کردے گا، پنجاب کی مختلف بارز سے اس حوالے سے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔‘

Back to top button