مذاکرات ختم کر کے کیا عمران خان کے پاس کوئی راستہ بچا ہے ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ قید سے نکلنے کی امید پر حکومت سے مذاکرات شروع کرنے کے بعد انہیں خود ہی تارپیڈو کرنے والے عمران خان ایک بار پھر اپنی مذاکرات دشمنی کی شہرت بچانے میں کام یاب ہو گئے ہیں۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ مذاکرات کا دروازہ بند کر کے اب خان صاحب کے پاس کونسا راستہ باقی بچا ہے؟

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حماد غزنوی بتاتے ہیں کہ ہمارے محلے میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے جو دانت درد سے عارضہ قلب تک ہر بیماری کا علاج ایک ہی گولی سے کیا کرتے تھے، اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اکثر مریضوں کو اس سے افاقہ بھی ہو جایا کرتا تھا، یعنی بہ قولِ مجید امجدؔ ــ ’’بنے یہ زہر ہی وجہ شفا جو تو چاہے…خرید لوں میں یہ نقلی دوا جو تو چاہے۔‘‘

حماد غزنوی کا کہنا ہے کہ انہیں حکیم صاحب اس لیے یاد آئے کہ میرا معاملہ بھی ان حکیم صاحب سے ملتا جلتا ہے، میرے پاس بھی ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ میری بیٹیاں پہلے اپنے اکثر مسائل میں مجھ سے مشورہ لیا کرتی تھیں، مگر اب کم کم ہی کرتی ہیں، انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ تعلیمی مسائل سے ڈپریشن تک جو مسئلہ بھی بابا جان کے حضور پیش کیا جائے گا اس کا ایک ہی حل تجویز کیا جائے گا، اور وہ حل ہے ’’واک‘‘۔ کسی نے کہا وہ بیمار ہے تو میں نے مشورہ دیا کہ واک کریں، کسی نے کہا کہ وہ بالکل صحت مند ہے تو میں نے پھر بھی واک کے فضائل پر خطبہ ارشاد کیا۔کسی نے وزن کم کرنے کا نسخہ پوچھا تو ہم نے پھر واک کے وظائف گنوا دیے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ حکیم صاحب کی اکلوتی گولی کی طرح پاکستانی ریاست و سیاست میں بھی ہر مسئلے اور بحران کا ایک ہی حل تجویز کیا جاتا ہے، اور وہ حل ہے ’’مذاکرات‘‘ ۔ مارشل لا میں بھی آمر اپنے مخالفین سے مذاکرات کرتے ہیں، برطانوی سامراج اپنے تمام تر خدائی زعم سمیت اپنی ’’رعایا‘‘ سے مذاکرات کیا کرتا تھا، حتیٰ کہ جنوبی افریقا کا ریجیم بھی اپنے سیاہ فام ’’غلاموں‘‘ سے مذاکرات کیا کرتی تھا۔ مزاکرات دراصل جمہوری نظام کی روح سمجھے جاتے ہیں، خاص طور پر جب کوئی سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہو جائے۔

 لیکن حماد غزنوی کے بقول عمران خان مسائل کے حل کے لیے نسخہ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے، وہ خود کو سیاست دان کہتے ہوئے شرماتے ہیں، اور سیاست دانوں کو طویل عرصہ ’’چور ڈاکو‘‘ کے لقب سے پکارتے رہے ہیں، عمران خان خواہ وزیرِ اعظم ہائوس میں ہوں یا جیل میں، لفظ ’مذاکرات‘ سے نفرت ہی کرتے رہے ہیں۔ موصوف ہر مسئلے کا حل مذاکرات کو نہیں بلکہ خام طاقت کو سمجھتے ہیں، چاہے وہ ایمپائر کی انگلی کی طاقت ہو یاخیبر پختون خوا کی سرکاری مشینری کی طاقت ہو۔ اپریل 2022 میں ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے نکلنے کے بعد وہ استعفیٰ دے کر قومی اسمبلی سے بھی نکل آئے، اور فیصلہ کیا کہ سیاسی لڑائی طاقت سے لڑی جائے گی۔ تب سے آج تک وہ طاقت کی اس لڑائی میں درجن بھر یُدھ لڑ چکے ہیں لیکن ہر بار ہزیمت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ 26 نومبر کی آخری ناکامی کے کچھ دن بعد خبر آئی کہ بانیبپی ٹی آئی نے مذاکرات کی اجازت دے دی ہے، اس پر سیاسی تجزیہ نگاروں نے یہ سمجھا کہ شاید اپنی پے در پے ناکامیوں کے بعد عمران نے دیوار کو مزید ٹکریں مارنے کے بجائے پہلی مرتبہ مذاکرات کا دروازہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِدھرپی ٹی آئی اور حکومت کے مذاکرات شروع ہوئے، اُدھر عمران خان کے ایکس اکائونٹ نے آگ اگلنا شروع کر دیا، کبھی فوج کو گالی، کبھی یحییٰ خان پارٹ ٹو کا شوشہ، کبھی شیخ مجیب الرحمٰن کے قصیدے، کبھی سقوطِ ڈھاکا کے طعنے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ عمران خود ہی مذاکرات شروع کر کے خود ہی انہیں ناکام بنانے پر کیوں کمربستہ ہیں۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اب آپ مذاکرات کی کہانی بھی سن لیں، حکومت اور تحریک انصاف کی کمیٹیوں کے مابین مذاکرات کے تین دور ہوئے، پہلے پی ٹی آئی اپنے مطالبات لکھ کر دینے کیلئے تیار نہیں تھی، پھر مان گئی، حکومت نے مذاکرات کے چوتھے دور میں مطالبات کا جواب دینا تھا، مگر اس سے پہلے ہی عمران خان نے یک دم مذاکرات کا دروازہ زور سے بند کر دیا، جواز یہ بتایا گیا کہ ہم نے کہا تھا سات دن کے اندر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، اگر یہ کمیشن نہ بنایا گیا تو بات چیت بند، دوسری جانب حکومت کہتی رہ گئی کہ دو دن بعد چوتھا مزاکراتی رائونڈ ہو گا اور ہم مطالبات کا جواب دیں گے، مگر خان صاحب انتظار نہ کر سکے اور مذاکرات کی میز سے اٹھ گے۔ یوں مذاکرات میں بیٹھنے کے باوجود عمران خان اپنی مذاکرات دشمنی کی شہرت محفوظ رکھنے میں کام یاب ہو گئے ہیں۔

پاکستانی سیاستدان اور جرنیل جمہوریت کا کیسے قتل کر رہے ہیں؟

تاہم اہم ترین سوال یہ ہے اب خان کے پاس کیا راستہ باقی بچا ہے؟ کیا وہ حکیم صاحب کی وہی گولی استعمال کریں گے جو ہر مسئلے کا حل ہے، یعنی پھر سے طاقت کی سیاست کی جائے، پھر سے لشکر کشی کی جائے ، پھر شمال سے یلغار کی جائے؟ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا 26 نومبر کو جوتیاں اٹھا کر بھاگنے والی جماعت میں اب وہ دم خم ہے؟ کیا پی ٹی آئی پختونخوا کے نئے صدر جنید اکبر اور وزیرِ اعلیٰ گنڈاپور کے درمیان داخلی طاقت کا توازن طے ہو چکا ہے؟ بظاہر تحریک انصاف کی قیادت اپنے بانی سمیت ہر معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی کا نہ تو مذاکرات کا موڈ ہے، اور نہ ہی اس میں دھاوا بولنے کی طاقت رہی ہے، پارٹی لیڈرشپ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر اب کرنا کیا ہے۔ ایسے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ویسے اگر بانی ہی ٹی آئی ہم سے مشورہ کریں تو ہم بہ صد خلوص ان کے کان مبارک میں سرگوشی کریں گے کہ ’’خان صاحب آپ بھی واک کیا کریں۔‘‘

Back to top button