سٹریٹ پاور کے خاتمے کے بعد PTI  کیلئے احتجاجی تحریک چلانا ناممکن

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پارٹی کی سٹریٹ پاور ختم ہو جانے کے بعد عمران خان کو احتجاجی تحریک کے ذریعے اپنی رہائی کی امید نہیں رہی چنانچہ انہوں نے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے کھلے عام فیصلہ سازوں کو ڈیل کی پیشکش کر دی جسکا ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں مل پایا۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے جس کی بنیادی وجہ عمران خان کا جیل میں ہونا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کے ورکرز سے لے کر مرکزی رہنماؤں تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے مختلف ایشوز پر کون سا بیانیہ لے کر چلنا ہے۔ لہٰذا پارٹی میں ہر کوئی اپنا اپنا بیانیہ لئے چل رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ہی موضوع پر پارٹی کے مختلف رہنما مختلف موقف لیے پھرتے ہیں۔ بھانت  بھانت کی ان بولیوں نے پارٹی کے اندر مایوسی طاری کر دی ہے لہٰذا نہ تو خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک کے حوالے سے کسی سطح پر یکسوئی اور سنجیدگی ہے اور نہ ہی بانی کی رہائی کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ 2024 کے الیکشن کے بعد ایک سال میں تحریک انصاف سیاسی طور پر آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے گئی ہے، یعنی اس نے سیاسی طور پر کچھ حاصل کرنے کی بجائے سٹریٹ پاور ہی کھو دی ہے جس کی وجہ سے عمران خان پاکستان کے مقبول اور طاقتور ترین لیڈر بن چکے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پارٹی کی کال پر احتجاج کے لیے ملک کے کسی بھی شہر میں کوئی ورکر باہر نہیں نکلتا۔ چنانچہ خود پارٹی کے اندر فریسٹریشن بڑھ رہی ہے جس کی بڑی وجہ خود پارٹی کا اندرونی بحران ہے۔

سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ ماضی میں بڑی بڑی تحریکیں چلانے اور بڑے بڑے جلسے کرنے والی تحریک انصاف اب چھوٹا سا احتجاج کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو پا رہی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب پارٹی کا ورکر عمران خان کے لیے لاٹھیاں کھانے اور جیل جانے کو تیار نہیں۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والا گرفتاریوں اور کارکنوں کے اندر پیدا ہونے والے خوف نے تحریک انصاف کے مزاحمتی بیانیے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب ساری مزاحمت سوشل میڈیا کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور سڑکوں پر آنے کے لیے کوئی بھی شخص تیار نہیں۔

کرپٹوکرنسی پرسٹیٹ بینک اورحکومت آمنےسامنے کیسے آ گئے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور ختم ہو جانے کے بعد موجودہ حالات میں کوئی احتجاجی تحریک کامیاب ہونے کے کوئی امکانات نہیں، چاہے عمران خان ایک مرتبہ پھر احتجاج کی کال دے کر آزما لیں۔جہاں تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے طرز عمل کا سوال ہے تو حالیہ دنوں میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک مضبوط پوزیشن میں کھڑی نظر آ رہی ہے جس کی بڑی وجہ بھارت کے جارحانہ طرز عمل اور جارحیت کے خلاف پاکستان کا زوردار ردعمل تھا۔ ان حالات میں حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف دینے کے موڈ میں نہیں کیونکہ پارٹی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اب بارگیننگ پوزیشن میں بھی نہیں رہی۔

ایسے میں اب بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کی جانب سے ٹی وی کیمروں کے سامنے ہی کچھ لو اور کچھ دو کی آفر سامنے آ رہی ہے؟  سلمان غنی کا کہنا ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر تب ہی عمل ہو سکتا ہے جب دونوں فریقین ڈیل کے لیے تیار ہوں، لیکن موجودہ حالات میں حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ سازوں کو عمران کے ساتھ ڈیل کر کے انہیں جیل سے باہر نکالنا سوٹ نہیں کرتا۔  ان کا کہنا ہے کہ حکومت عمران خان کو رہا کرنے پر تب ہی مجبور ہو گی جب ان کی جماعت کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلانے یا دھرنا دینے میں کامیاب ہو، لیکن ابھی اس کے امکانات بہت محدود نظر آ رہے ہیں۔

Back to top button