27 ویں ترمیم کی بنیاد پر ہی ن لیگ کی حکومت میں شامل ہوئے ہیں : مصطفیٰ کمال

متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم پاکستان ) کے رہنما سید مصطفیٰ کمال کاکہنا ہےکہ 27 ویں آئینی ترمیم پر ن لیگ کے ساتھ ایم او یو سائن کیا تھا اور وہ پوری طرح ہمارے ساتھ ہے جب کہ ترمیم کی بنیاد پر ہی ہم حکومت میں شامل ہوئےہیں۔

سینئر رہنما ایم کیو ایم پاکستان سید مصطفیٰ کمال کاکہنا تھاکہ صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل 140 A پر عمل نہیں کررہی،ہم نے 27 ویں آئینی ترمیم  کا ڈرافٹ بنایا اور ترمیم کو آئین کا حصہ بنانا چاہتےہیں، 26 ویں آئینی ترمیم میں ہی 27 ویں ترمیم شامل کرنا چاہ رہےتھے، 27 ویں ترمیم سے وزیر اعلیٰ کو مقامی حکومتوں کی تشریح نہیں کرنی پڑےگی۔

سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 2013 میں جب پاکستان سے باہر گیا تو استعفیٰ دےکر نہیں گیا تھا کیوں کہ اگر اعلان کرکے جاتا تو ملک سے باہر نہیں جاسکتا تھا،میں ایم کیو ایم چھوڑنا چاہتا تھا،جب پاکستان چھوڑا تو لندن اور یہاں کی رابطہ کمیٹی ڈھونڈتی رہی،میرا رابطہ پارٹی سے صرف ای میل پر رہا اور پارٹی کو کہا ذاتی مسائل کی وجہ سے پارٹی میں واپس نہیں آسکتا،پارٹی اراکین کہتے تھے بھائی ( الطاف حسین ) سے ایک دفعہ بات کرلو، پیغام ملتاتھا بھائی کہہ رہےہیں ایک  دفعہ بات کروا دو میری۔

رہنما ایم کیو ایم مصطفیٰ کمال نےکہا کہ نومبر2013 میں سینیٹ سے استعفیٰ کا پیغام ملا،مستعفی ہونےکے 7 ماہ بعد میرا استعفیٰ سینیٹ میں جمع کروایاگیا، 13 اگست 2013 کےبعد الطاف حسین سے بات نہیں ہوئی،ڈاکٹر عمران فاروق کےقتل کی انگلیاں الطاف حسین کی طرف اٹھتی ہیں۔

مصطفیٰ کمال کاکہنا تھاکہ میرے زمانے میں کراچی دنیا کے 12 تیز ترقی کرنے والے شہروں میں شامل ہوا،آج کا کراچی دنیا کےچار بدترین شہروں میں شامل ہے،اگر آبادی بڑھی ہےتو وسائل بھی بڑھےہیں،اس سال این ایف سی ایوارڈ کے 1800 ارب روپے سندھ کو ملےہیں،ہمارے دور میں سو ڈیڑھ سو ارب ملتا تھا،1800 ارب روپے کا مالک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے۔

انہوں نے کہاکہ بڑی جماعتوں کے لوگ نئی لیڈر شپ نہیں چاہتے،ہر بڑی پارٹی نے لوکل گورنمنٹ کی مخالفت کی ہے۔

سید مصطفیٰ کمال کاکہنا تھاکہ پاک سر زمین پارٹی بنانا ہمارا اپنا فیصلہ تھا،جب ریاست کو را سے فنڈز لینےوالوں سے مسئلہ نہیں تو ہمیں کیوں ہوگا ؟، ہمارا 800 سے 900 نوجوان لاپتہ تھا،جس کو اٹھاتے تھے اس کو را کا ایجنٹ بولتےتھے،نوجوانوں کو را کا ایجنٹ لیڈر شپ کی وجہ سے بولتےتھے، مہاجروں کی پہچان را کے ایجنٹ کی نہیں،پڑھے لکھےنوجوانوں کی تھی،جب دشمنی کی ہےتو کھل کر کی ہے۔

مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ جو میرے ڈی این اے کو جانتےہیں انہیں علم ہےکوئی مجھ سے کام نہیں کرواسکتا،میرے پاس ثبوت ہےکہ میں 2018 کا الیکشن جیتا ہوں، 9 بج کر 16 منٹ پر ملک کا آر ٹی ایس سسٹم بٹھادیا گیا تھا،کوہلو،وزیرستان، افغانستان بارڈر سے رزلٹ آگئے لیکن کراچی کا رزلٹ نہیں آیا۔

انہوں نےکہاکہ نیب کےدونوں کیسز میں زمین کی الاٹمنٹ کا ذکر نہیں ہے،جس زمین کا نمبر لکھا ہےوہ 35 سال سے پرائیویٹ پراپرٹی ہے،پانچ سال سے پیشیاں بھگت رہا ہوں لیکن کیس میں کوئی گواہ نہیں آیا،2019 میں ملک چلانےوالے چاہتےتھے کہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجاؤں۔

ان کاکہنا تھاکہ بلدیہ فیکٹری کے مالکان سانحہ بلدیہ ٹاؤن کےذمہ دار ہیں،بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی نہیں گئی،لگی تھی،سانحہ بلدیہ فیکٹری کا ایک ملزم کینیڈا اور ایک لندن میں رہ رہا ہے،لکڑی کا غیرقانونی فلور بنا تھاجس میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگی،آگ لگی تو فیکٹری مالکان نےکہا دروازہ بند کرو کوئی کیش لے کر نہ بھاگ جائے،سانحہ بلدیہ کےدونوں ملزمان کو بزنس کمیونٹی نے ضمانت دلوا کر فرار کیا اور ملزمان کو راجہ پرویز اشرف کےذریعے رہائی دلوائی گئی۔

انہوں نے کہاکہ 2021 کے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل پر چھٹے دن معاہدہ ہوا تھا، ایم کیو ایم اکیلے حکومت چھوڑنے والا کام نہیں کرے گی، ایم کیو ایم کو صوبائی حکومت میں اسپیس دی جائے،ہمارے پاس ایک منسٹری ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں،جو منسٹری ہمیں دی ہےوہ صرف اسلام آباد میں اسکولوں کی مالک ہے۔

ان کاکہنا تھاکہ پی ٹی آئی اس ڈگر پر چلی تو اس کا مستقبل تاریک ہے،اس فیز سے گزر چکےہیں،ہم اپنے لیڈر سے بات نہیں کرسکتے تھے،ہم اپنے لیڈر سے اس لیے بات نہیں کرسکتے تھے کہ جانوں کا خطرہ تھا، ہم نے بغاوت کی ،اگر پی ٹی آئی بھی یہی کرتی رہی تو تھک جائےگی،ری ہیب سینٹر داخل کروانے کے باوجود ہم اپنا لیڈر نہیں بچاسکے،پی ٹی آئی کو کہتا ہوں اندھا دھند لیڈر کی بات نہ مانو۔

سینئر رہنما ایم کیو ایم سید مصطفیٰ کمال نے کہاکہ الطاف حسین اور ان کی بیٹی کی کوئی واپسی نہیں ہوگی،سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکہ الطاف حسین کی بیٹی آئے اور سیاست کرے،سندھ حکومت کے پانی میں کٹوتی نہ کرنے کےموقف کی تائید کرتا ہوں،نہروں کی وجہ سے سندھ کا پانی کم ہوگا،اس خدشے کو دور کرنا چاہیے۔

صرف پاکستان کی بہتری کیلئے مذاکرات کررہے ہیں: عرفان صدیقی

مصطفیٰ کمال کاکہنا تھاکہ 18 ویں ترمیم کے بعد طاقت اور وسائل وزرائے اعلیٰ ہاؤس میں قید ہوگئے، 18 ویں ترمیم کا اطلاق پوری طرح نہیں ہوا،جب تک طاقت نچلی سطح تک نہیں جائےگی گورننس بہتر نہیں ہوگی ، ملک بہت بری کنڈیشن میں کھڑا ہے، پولرائزیشن کی وجہ سےکوئی کسی کو برداشت کرنےکو تیار نہیں ہے، اب اختلافات سیاسی دشمنیوں میں بدل گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کراچی اسٹیل مل کی نجکاری کرنی چاہیے،ہم کبھی کسی ناجائز چیز کی حمایت نہیں کریں گے،ملک میں انتظامی بنیادوں پر 22 صوبے بننےچاہئیں، ڈی سینٹرلائزیشن سے اخراجات بڑھتے نہیں کم ہوتےہیں،کیا 48 ہزار اسکولوں کی خبر ایک وزیر تعلیم رکھ سکتا ہے؟، اسکول کی دیکھ بھال والا اسی محلے میں ہوگا تو احتساب آسان ہوگا۔

Back to top button