ضیاء نے اپنی کٹھ پتلی جونیجو حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیسے کیا؟

سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے اپنے دور آمریت کو نام نہاد جمہوری دور ثابت کرنے کے لئے پیر پگاڑا کی فرمائش پر سندھ سے محمد خان جونیجو کو اپنا وزیراعظم تو بنا لیا لیکن جب اصول پرست اور سادگی پسند جونیجو نے اپوزیشن سے معاملات بہتر کرنے اور ضیا کے احکامات بلا چون و چران ماننے سے انکار کیا تو 29 مئی 1988 کو انہیں ایک جھٹکے سے وزارت عظمی سے فارغ کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جونیجو کی فراغت کی فوری وجہ ضیاالحق کی جاسوسی کروانا بنی۔

چار سال تک جنرل ضیا کی کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے وزیررہنے والے راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے گرد موجود کرتا دھرتا جرنیلوں کی رائے تھی کہ سندھ سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اگلا وزیر اعظم سندھ سے ہی لانا ہو گا تاکہ اسے قبولیت کی سند مل سکے اور ایسی ہی رائے پیر صاحب پگارا کی بھی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر معاملہ فہمی اور دیانتداری کا جو درجہ محمد خان جونیجو کو حاصل تھا وہ کسی دوسرے میں کم ہی تھا۔ الٰہی بخش سومرو بھی امیدوار تھے لیکن راجہ ظفرالحق کے بقول فیصلہ سازوں کا اتفاق رائے محمد خان جونیجو پر ہی تھا۔

یہ تاثر بھی عام ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو ایک نرم گفتار سیاستدان کی ضرورت تھی جس کے اپنے کوئی عزائم نہ ہوں اس لیے ان کی نظر انتخاب محمد خان جونیجو پر پڑی۔ ورنہ21 مارچ 1985 کی رات تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سندھڑی سے تعلق رکھنے والے منکسر المزاج زمیندار محمد خان جونیجو، اچانک ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ ویسے بھی’پیر پگارا نے انتخابات سے بھی قبل یہ بات کہہ دی تھی کہ ہم وزیر اعظم کے لیے محمد خان جونیجو ادھار پر دے دیں گے۔ وہ صدر ضیا الحق سے صاف کہہ چکے تھے کہ وزیر اعظم کا تعلق اگر سندھ سے ہو گا تو وہ صرف محمد خان ہو گا۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ک ضیا الحق کے جونیجو سے اختلافات ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔ صدر جنرل ضیاالحق نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے جب جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا تو پہلی ملاقات میں جونیجو نے ضیا الحق سے سوال کیا کہ مارشل لا کب اٹھے گا؟ انکا کہنا تھا جب وزیر اعظم ہو گا تو مارشل لا تو نہیں چل سکتا، لہٰذا اس ملاقات کے 12 منٹ بعد ہی دونوں میں اختلاف سامنے آ گیا تھا۔ راوی بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے چہرے پر ناگوار تاثرات تھے۔ پھر جب جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا تو انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کیے، ان کے لیے ہوئے کئی فیصلوں سے ضیا کو اتفاق نہیں تھا اور بعض معاملات پر ان کا خیال تھا کہ جونیجو ان کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنرل ضیا بہرحال ایک آمر تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا نامزد وزیر اعظم اس کے سامنے ریڈ لائن کراس کرے کیونکہ اس وزیراعظم کو تو لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان میں جمہوری نظام نافذ ہے۔

راجہ ظفر الحق صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات اور ان کی وجوہات کی تفصیلات سے خوب واقف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘اپریل 1986 میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد سے ملک میں سرگرم اپوزیشن جماعتوں سے وزیر اعظم جونیجو کے رابطوں کو فوجی قیادت پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔ جب جنیوا معاہدے سے قبل جونیجو نے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مشورے کے لیے طلب کی تو جنرل ضیا الحق نے انھیں کہا کہ وہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور خطاب کرنے کے خواہشمند ہیں۔ جنرل ضیا نے جونیجو سے کہا کہ میں جنیوا مذاکرات کے حوالے سے اپنا مؤقف ان لوگوں کے سامنےرکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں معاہدے کے حق میں نہیں ہوں۔ دوسری جانب جنرل ضیاء الحق افغانستان میں مستحکم سیاسی حکومت کے قیام سے قبل جینوا معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن محمد خان جونیجو نے صاف منع کر دیا اور کہا کہ آپ کو بلایا تو ان میں کوئی بھی اے پی سی میں شریک نہیں ہو گا۔ راجہ ظفر الحق کہتے ہیں اس آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں نے جونیجو کو ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا جو جنرل ضیاء الحق کے لیے بڑا دھچکا تھا۔

بہرحال جنرل ضیا الحق کے منع کرنے کے باوجود جنیوا معاہدہ کیا گیا۔ اس حوالے سے جونیجو نے گول میز کانفرنس بھی منعقد کرائی جس میں بے نظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں۔ یہ کانفرنس ایک روز میں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ دو روز تک جاری رہی۔ دوسرے روز جنرل ضیاء الحق نے وزیرقانون اقبال احمد خان کو فون کیا اور کہا کہ یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟ پھر جنرل ضیا نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تو عوام آپ کو دردناک طریقے سے مار ڈالیں گے۔ دراصل ضیاء کو جنیوا معاہدے کے حوالے سے جونیجو کی پالیسی سے شدید اختلاف تھا اور وہ کہتے تھے کہ ‘جونیجو نے ساری اپوزیشن کا مؤقف لے لیا ہے لیکن میرے مؤقف کو اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملات خراب ہو رہے ہیں اس لیے میں نے دونوں کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک روز جونیجو کو ساتھ لے کر آرمی ہاؤس چلا گیا۔ اس ملاقات میں ضیا الحق نے خان جونیجو سے ان کی حکومت اور پارلیمنٹ کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور کہا کہ آپ کام نہیں کرتے، کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی، لوگ میری گاڑی روک روک کر اس پر مکے مارتے ہیں۔ اس کے جواب میں جونیجو نے کہا کہ آپ اتنا طویل عرصہ حکومت کرتے رہے ہیں تو جو ضروری کام تھے وہ آپ کر جاتے، مجھے تو پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

لیکن راجہ ظفر کے مطابق جنرل ضیاء اور جونیجو کے درمیان جو معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیا تھا وہ ضیا کے گھر کی خفیہ نگرانی کا تھا۔ ضیا کو آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبد الرحمان کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ خفیہ نگرانی جونیجو کی ہدایت پر کی جا رہی ہے، آپ کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں اور آمدورفت کی ویڈیو بھی بنتی ہے۔ تاہم جونیجو کہتے ہیں کہ نہ میرا فون ٹیپ کرنے سے کوئی تعلق تھا نہ ان کے گھر آنے جانے والوں کی ویڈیو بنانے کا نہ میں نے کبھی کہا، نہ ہی میرے علم میں تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوکی گئی جب انھوں نے فوجی افسروں کی ترقیوں اور تقرریوں کی فائلیں ایوان وزیر اعظم میں روکنا شروع کر دیں۔ وہ بعض افسروں کی فائلیں ازخود طلب کرنے لگے تھے اور جو فائلیں بھجوائی جاتی تھیں ان کو روکنے لگ گئے تھے۔ ایک بڑا اختلاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف سٹاف کی تقرری کا بھی تھا۔ جنرل ضیا کا خیال تھا کہ یہ تقرری ان کی مرضی سے ہونی چاہیے اور وہ اسلم بیگ کو اس منصب پر فائز نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جونیجو نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے اس طرح انھوں نے جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا جس میں جنرل ضیا کی مرضی شامل نہیں تھی۔ تب کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع پر جونیجو کو سخت اعتراض تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان کی مدت ملازمت بھی پوری ہو گئی ہے اور منصب کی مدت بھی تو پھر یہ کیوں اس پر قائم ہیں۔

مودی گلی کے غنڈوں کی طرح پاکستان کو تڑیاں کیوں لگانے لگے؟

اس طرح کے کئی واقعات کے بعد بالآخر 29 مئی 1988 کا وہ دن آیا جب جونیجو جاپان کے دورے سے واپس آئے تو ان کے ایئر پورٹ لینڈنگ کے وقت جنرل ضیا نے انھیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا۔ یعنی ایک وزیراعظم غیر ملکی دورے سے واپسی آیا تو اسے پتہ چلا کہ اب وہ وزیراعظم نہیں ہے۔

Back to top button