جسٹس کیانی، جسٹس ڈوگر کا راستہ روکنے کے لیے میدان میں آگئے

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین نئے ججز آنے کے بعد وکلا کا احتجاج تو جاری ہے لیکن جج حضرات بھی لاہور ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہو کر آنے والے جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے آخری حد تک جا رہے ہیں۔ عمرانڈو قرار پانے والے جسٹس محسن کیانی کی زیر قیادت سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے اب موجودہ چیف جسٹس اسلام اباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کو ایک اور خط لکھ مارا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ججز کی طے کردہ سینیارٹی لسٹ پر نظر ثانی کریں۔

یاد رہے کہ جسٹس عامر فاروق نے حال ہی میں اسلام اباد ہائی کورٹ میں تعینات ہونے والے جسٹس سرفراز ڈوگر کو پیونی جج مقرر کیا ہے یعنی وہ ان کے بعد سینیئر ترین جج بن گے ہیں۔ تاہم اسلام اباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کو یہ سینیارٹی لسٹ قابل قبول نہیں چونکہ وہ جسٹس محسن کیانی کو اگلا چیف جسٹس بنوانا چاہتے ہیں۔ مختلف ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد ہائی کورٹ لانے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحیی آفریدی کی حمایت کے بعد وکلا میں بھی واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل اس معاملے پر حکومت کے ساتھ ہیں جبکہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن جسٹس محسن کیانی کا ساتھ دے رہی ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام اباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔  اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس وقت عمرانڈو ججز کی اکثریت ہے جو تحریک انصاف کی قیادت کو مسلسل ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامی طور پر بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن کے تحت جسٹس محسن کیانی کی جگہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو انسدادِ دہشت گردی اور احتساب عدالتوں کا انتظامی جج تعینات کر دیا گیا ہے۔ اب 9 مئی کی دہشت گردی اور 190 ملین پاونڈز کرپشن کیس میں سزا پانے والوں کی اپیلوں کا مستقبل جسٹس سرفراز ڈوگر کے ہاتھ میں ہوگا۔

ایک جانب حکومت نواز آئینی ماہرین اور وکلا کا کہنا ہے کہ یہ سب آئین اور قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکلا کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم آئین کے آرٹیکل 175اے سے متصادم ہے۔واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت صدرِ آصف زرداری کی منظوری کے بعد لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے تین ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات کر دیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سات ججز نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا مطالبہ ہے کہ صرف اسلام آباد میں موجود افراد کو ججز اور چیف جسٹس تعینات کیا جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی ان تعیناتیوں کو قانون کے مطابق قرار دے چکے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ر) شائق عثمانی کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 200 اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ صدر پاکستان دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور متعلقہ جج سے پوچھ کر انہیں ٹرانسفر کرسکتا ہے۔ اُن کے بقول اب 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کے بعد ٹرانسفر ہونے والے ججز کی سنیارٹی بھی برقرار رہے گی اور ان کا حلف بھی برقرار رہے گا۔

جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تبادلے کے بعد کسی دوسری ہائی کورٹ سے آنے والا جج دوسری ہائی کورٹ میں چیف جسٹس نہیں بن سکتا اور ایسا آئین میں موجود ہے۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل حافظ احسان کھوکھر اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ وفاق کی ایک عدالت ہے جس میں کسی بھی صوبے سے ججز بلائے بھی جا سکتے ہیں اور انہیں چیف جسٹس بھی لایا جا سکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی JUI میں اندرونی بغاوت کیوں شروع ہو گئی؟

اس بارے میں دنیا بھر کی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی بھی جج کو دوسرے علاقوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں تمام افراد عدلیہ سے متعلق ہیں اور اگر تمام عدلیہ سے متعلق افراد نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ دوسری ہائی کورٹس سے ججز لائے جاسکتے ہیں تو یہ ایک جوڈیشل آرڈر ہے۔ حافظ احسان نے کہا کہ اب نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقۂ کار یہ ہو گا کہ جوڈیشل کمیشن کو تین ججز کے ناموں کا پینل بھجوایا جائے گا اور اس میں وہ جس جج کو بھی چیف جسٹس کے لیے مناسب سمجھیں گے انہیں تعینات کردیا جائے گا۔ اس میں کوئی بھی ایشو نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 کے مطابق دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے پر عارضی چیف جسٹس تعینات ہونے کے لیے صرف ایگزیگٹو آرڈر کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ کسی بھی ہائی کورٹ کے جج کو قائم مقام چیف جسٹس بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن کی مرضی ہے کہ وہ کس کو چیف جسٹس تعینات کرتا ہے۔

Back to top button