جسٹس طارق محمود جہانگیری کو الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونل اسلام آباد کی سربراہی سے ہٹادیا

الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ عبدالشکور پراچہ کو الیکشن ٹربیونل اسلام آباد کا سربراہ مقرر کر دیا۔

الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے تینوں ارکان قومی اسمبلی کی درخواست منظور کرتےہوئے کیا،جس میں انہوں نے اپنےخلاف دائر کردہ انتخابی عذر داریاں دوسرے ٹریبونل منتقل کرنے کی استدعا کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ کی جانب سے جاری کردہ 3 علیحدہ لیکن ایک جیسے حکم ناموں میں اقدام کو آئین کی دفعہ 218(3) اور 10اے جب کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 3،4 اور 151 کے تحت درست قرار دیا ہے۔

اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں سے متعلق انتخابی عذرداریاں اب الیکشن ٹریبول راولپنڈی کو منتقل کر دی گئی ہیں جس کی سربراہی جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ کر رہے ہیں،جنہیں اب اسلام آباد کا اختیار بھی تفویض کر دیا گیاہے۔

فیصلے میں کہاگیا ہےکہ جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل الیکشن ٹریبونل اسلام آباد کا سابقہ نوٹیفکیشن واپس لیا جاتا ہے،دفتر کو ہدایت دی جاتی ہےکہ وہ اس کے مطابق کارروائی کرے۔

یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کےرہنماؤں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری،راجہ خرم نواز اور انجم عقیل خان کی درخواستوں پر کیاگیا ہے۔درخواست گزاروں میں پی ٹی آئی کے شعیب شاہین،سید محمد علی بخاری اور عامر مغل شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کے ایک حکم نامے میں لاہور ہائی کورٹ کےفیصلے کا حوالہ دیاگیا ہے جس میں کہاگیا ہےکہ قانونی کارروائی کا تصور اس خیال پر منحصر ہے کہ قانونی کارروائی طے شدہ قواعد کےمطابق کی جائے، مدعی کے حقوق کا فیصلہ کرنے کےلیے قانونی دفعات اور طے شدہ اصولوں کا اظہار کریں۔

حکم نامے میں کہاگیا ہےکہ 18 ویں ترمیم کےذریعے آئین میں آرٹیکل 10 اے کی شمولیت کےبعد منصفانہ ٹرائل اور مناسب طریقہ کار بنیادی حقوق میں شمار ہوتا ہے۔

حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کا بھی ذکر کیاگیا ہےجس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جسٹس (ر) عبدالشکور پراچہ کو راولپنڈی اور اسلام آباد کےلیے ٹریبونل کا سربراہ مقرر کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ اس فیصلے کی واحد بنیاد یہ تھی کہ الیکشن کمیشن نےجلد بازی میں کارروائی کی۔

حکم نامے میں کہاگیا ہےکہ عدالت نے یہ بھی کہاکہ تبادلے کا اختیار نگرانی اور انتظامی نوعیت کا ہے اور ہر متعلقہ شخص کو موقع فراہم کرنے کےبعد اس کا استعمال کیاجانا چاہیے۔

حکم نامے میں کہاگیا ہےکہ ہائی کورٹ نے کمیشن کے حکم کو مسترد کرنے کےلیے کسی اور بنیاد کا ذکر نہیں کیا،موجودہ معاملے میں،جو قانونی چارہ جوئی کا دوسرا دور ہے،کمیشن نے فریقین کو اضافی بنیاد،تحریری جوابات، ترمیم شدہ جوابات اور وسیع دلائل داخل کرکے اپنے موقف کا دفاع کرنےکا کافی موقع فراہم کیاہے۔

ڈی چوک احتجاج: بشریٰ بی بی نے جو کیا میری ہدایات کے مطابق کیا، عمران خان

واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی درخواست پر جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جگہ جسٹس ریٹائرڈ عبدالشکور پراچہ کو الیکشن ٹربیونل بنایا تھا جسے پی ٹی آئی امیدواروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلےکو معطل کر کے ریمانڈ بیک کیا تھا۔جس پر ن لیگی ایم این ایز نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔

Back to top button