جسٹس عمر سیال نے سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے انکار کردیا
سندھ ہائی کورٹ کے نو تشکیل شدہ آئینی بینچ کے 9 ارکان میں سے ایک نے یہ کہتےہوئے بینچ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا کہ جوڈیشل کمیشن (جے سی پی) کو سنیارٹی کی بنیاد پر بینچ تشکیل دیناچاہیے تھا۔
جسٹس عمر سیال اگر بینچ کا حصہ بننے سے انکار نہ کرتےتو وہ بھی اس تین رکنی کمیٹی کا حصہ ہوتے جو سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کے سامنےمقدمات کے تعین کا فیصلہ کرتی ہے۔ انہوں نے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس محمد کریم خان آغا کو خط کےذریعے آگاہ کیاکہ بینچ کا رکن بننا یا نہ بننا جج کا اختیار ہے۔
جسٹس عمر سیال نے اپنے خط میں کہاکہ سندھ ہائی کورٹ کے ہر جج کو آئینی خلاف ورزیوں کا ازالہ کرنے کاکام سونپا جاتا اور اگر یہ ممکن نہ تھاتو ان بینچز کےلیے ججز کا انتخاب سنیارٹی کے مطابق ہونا چاہیے جب تک کہ ایسا نہ کرنے کی کوئی وجوہات نہ ہوں۔
یاد رہے کہ 25 نومبر کو جوڈیشل کمیشن نے 26 ویں ترمیم کے تحت جسٹس کریم خان آغا کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کےلیے 9 رکنی آئینی بینچ قائم کیا تھا۔
جسٹس محمد کریم آغا سندھ ہائی کورٹ کےججز کی سنیارٹی لسٹ میں نویں نمبر پر ہیں جبکہ بینچ کے دیگر ججز جسٹس محمد سلیم جیسر، جسٹس عمر سیال،جسٹس یوسف علی سعید، جسٹس عبدالمبین لاکھو،جسٹس ذوالفقار علی سانگی، جسٹس ثنا اکرم منہاس، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس ارباب علی ہکرو سندھ ہائی کورٹ کے ججز کی سنیارٹی لسٹ میں بالترتیب 12، 14، 16،21، 22،24، 26 اور 28ویں نمبر پر ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی، جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو،جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس محمد جنید غفار،جسٹس ظفر احمد راجپوت، جسٹس محمد اقبال کلہوڑو،جسٹس ذوالفقار احمد خان اور جسٹس محمود خان سمیت آٹھ سینئر ججز کو جوڈیشل کمیشن نے آئینی بینچ کےلیے نامزد کرتےوقت نظر انداز یا سپر سیڈ کیا۔
فی الحال سندھ ہائی کورٹ 40 ججز کی منظور شدہ تعداد کےبجائے 28 ججز کے ساتھ کام کررہی ہے۔
36 ہزار آئینی درخواستوں سمیت تقریباً 96 ہزار مقدمات ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
ان میں سے تقریباً 22 ہزار آئینی درخواستیں کراچی میں اس کی پرنسپل سیٹ پر اور 14 ہزار کےقریب صوبے کےدیگر حصوں میں مختلف بینچز میں زیر التوا ہیں۔
جسٹس عمر سیال نے اپنے خط میں یہ بھی ذکر کیاکہ جوڈیشل کمیشن میں ان کے سینئر ساتھیوں اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کےلیے کی گئی نامزدگیوں سے اختلاف کیاتھا اور وہ اس بات کو سراہتے ہیں کیوں کہ ان کا اختلاف شخصی نہیں بلکہ اصولی معاملہ تھا۔
فاضل جج نےکہاکہ ان کے نقطہ نظر میں کچھ سینئر جج اپنے تجربے،علم اور حکمت کےباعث آئینی بینچ کو تفویض کردہ مقدمات کو نمٹانےوالے بینچز کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے یہ فیصلہ کیاجانا بہتر تھا کہ کس جج کو کس بینچ کا حصہ ہوناچاہیے،کیوں کہ ایک صوبے کا چیف جسٹس اپنے ججز کو سب سےبہتر جانتا ہے۔
عمران خان کی سیاست کو بشریٰ بی بی کی سیاست نے ختم کردیا : فیصل واؤڈا
خط میں مزید کہاگیا ہےکہ جب ایگزیکٹو سے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی بڑی اکثریت صحیح یا غلط طور پر بینچز کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، تو عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے بارےمیں ایک خطرناک تاثر پیدا ہوتا ہے جو جمہوریت کو بری طرح نقصان پہنچاتاہے۔