خضدار خودکش حملے میں آرمی افسران کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا

21 مئی 2025 کو بلوچستان کے علاقے خضدار میں جس سکول بس کو خودکش بمبار نے نشانہ بنایا وہ آرمی پبلک سکول کی ملکیت تھی اور زیادہ تر سٹوڈنٹس فوجی افسران کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے تھا جسے بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس حملے میں 4 معصوم طالبات سمیت 6 افراد شہید یوئے جبکہ 40 سے زائد سکول سٹوڈنٹس زخمی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ زخمیوں میں سے 20 سے زائد کی حالت تشویش ناک ہے۔

یاد رہے کہ آرمی سکول کے طلبہ کو اس سے قبل 16 دسمبر 2014 کو نشانہ بنایا گیا تھا جب تحریک طالبان کے دہشت گرد پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ اور ہو گئے تھے اور 144 سے زائد افراد کو شہید کر دیا تھا، شہید ہونے جانے والوں میں سے بیشتر معصوم سکول طلبہ تھے جن کا تعلق فوجی خاندانوں سے تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر عائد کی گئی تھی جب کہ خضدار حملے کا الزام بلوچ لبریشن آرمی پر عائد کیا گیا ہے۔

بلوچستان کے ضلع خضدار میں سکول بس پر ہونے والے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی نے کہا کہ دھماکہ خضدار شہر میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر علی الصبح تب ہوا جب آرمی پبلک سکول بچوں کو سکول لے جانے والی بس شہر کے مختلف مقامات سے بچوں کو پِک کر رہی تھی۔ان کے مطابق جب یہ بس زیرو پوائنٹ پر پہنچی تو ایک چھوٹی کار میں سوار خودکش بمبار نے بس کو ٹکر مار دی جس سے زوردار دھماکہ ہوا اور آگ لگ گئی۔

خضدار تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق دھماکے میں بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ حملے کے بعد بس کے قریب ایک چھوٹی گاڑی تباہ شدہ حالت میں ملی جس کے اندر موجود لاش جل کر بھسم ہو چکی تھی۔ تاہم ڈی این اے ٹیسٹ سے خودکش بمبار کی شناخت کے لیے لاش کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ جائے وقوع پر ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ جس مقام پر دھماکہ ہوا وہ خضدار شہر سے 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ خودکش حملے کے فوری بعد جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا ٹائٹل عطا کرنے کی تقریب ملتوی کر دی گئی جو کہ ایوان صدر میں منعقد ہونا تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا یہ افسوسناک حملہ ‘انڈیا کے دہشتگرد نیٹ ورک نے بلوچستان میں اپنی پراکسی تنظیم کے ذریعے کروایا ہے۔

فوجی ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خضدار میں بچوں کی سکول بس کو نشانہ بنایا جانا انڈین ریاستی دہشتگردی کا ایک اور ثبوت ہے۔ دوسری جانب انڈین وزارت خارجہ نے صوبہ بلوچستان کے علاقے خضدار میں سکول بس پر حملے میںں کے ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ انڈیا اس واقعے میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی عادت بن چکی ہے کہ وہ اپنے تمام اندرونی مسائل کا الزام انڈیا پر عائد کرتا ہے۔‘

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ خضدار میں بچوں کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا اس میں 46 بچے سوار تھے جس میں سے چار بچے شہید ہوئے جبکہ باقی زخمی ہیں۔ بگٹی کے مطابق جو بچے شدید زخمی تھے انہیں ایئر ایمبولینس سے علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ٹھوسں انٹیلی جنس رپورٹس مل چکی تھیں کہ انڈیا بلوچستان میں ایک خود کش حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم ہمیں یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ سکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو گاڑی میں نصب دھماکہ خیز مواد سے حملہ کر کے نشانہ بنایا۔

وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے حملے کا الزام انڈیا پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ بھارت کی بزدلانہ سوچ ہے کہ وہ بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دشمن سے اس قدر گرنے کی توقع نہیں تھی۔’ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ‘افغان عبوری حکومت کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اپ نے پوری دنیا کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ آپ کی زمین کسی دہشتگرد حملے میں استعمال نہیں ہو گی لیکن آپ کی سرزمین سے بار بار ہم پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنا وعدہ پورا کریں گے اور اپنے وعدے کی پاسداری کریں گے۔’ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ‘پچھلے آٹھ مہینوں سے ایسے سافٹ ٹارگٹ کیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی دہشت گردوں نے معصوم بچوں پر حملہ کیا تھا اور اس کا انجام بھی پھر سب نے دیکھا۔ ہم اس حملے کا بھر پور جواب دیں گے لیکن ہمارے نشانے پر بچے نہیں بلکہ دہشت گرد ہوں گے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے بھی خضدار میں بچوں سے بھری پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے ایک بیان میں کہا کہ ‘ہم خضدار میں سکول بس پر بے رحمانہ اور سفاکانہ حملے کی مذمت کرنے میں پاکستانی قیادت کے ساتھ شامل ہیں۔ یاد ریے کہ خضدار شہر دارلحکومت کوئٹہ سے تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع اس شہر کا شمار کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور یہ قلات ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ شہر سمیت ضلع خضدار کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے متاثر ہیں۔

برطانیہ خضدار میں بچوں کی بس پر دہشت گرد حملہ کی شدید مذمت کرتا ہے : برطانوی ہائی کمشنر

چند روز قبل ضلع کے علاقے صمند میں لیویز فورس کی ایک چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں لیویز کے چار اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل جنوری کے مہینے میں خضدار شہداد کوٹ روڈ پر ایک مسافر بس پر ہونے والے حملے میں ایک شخص جان بحق اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ طویل عرصے سے خضدار شہر اور اس کے دیگر علاقوں میں سنگین بدامنی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔

Back to top button