احسان اللہ احسان ملی بھگت کے نتیجے میں فرار ہوا

سینکڑوں پاکستانیوں کے قتل میں ملوث تحریک طالبان کے سابق ترجمان کے فوج کی حراست سے فرار کو ملی بھگت کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے آرمی پبلک اسکول سانحے میں اپنے بچوں کو کھونے والے والدین نے اعلی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ذمہ دار افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جا سکے۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول میں شہید ہونیوالے135 بچوں میں سے ایک کے والد اور’اے پی ایس شہدا فورم‘ کے صدر فضل خان ایڈووکیٹ نے معصوم بچوں کے قتل کی ذمہ داری لینے والے دہشتگرد احسان اللہ احسان کےفرار کیخلاف پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر تے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ احسان اللہ احسان فرار ہوا نہیں بلکہ فرار کروایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ احسان اللہ احسان ہمارا مجرم ہے لہذا ریاست اس خونی بھیڑیے کو کیسے معاف کر سکتی ہے؟
فضل خان ایڈووکیٹ نے پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرتے ہوئے کہا کے کہ ہم پانچ سال سے آرمی پبلک اسکول پشاور میں مارے جانے والے اپنے بچوں کے لیے انصاف مانگ رہے ہیں، لیکن ہماری شنوائی نہیں ہو رہی۔ یاد رہے کہ اے پی ایس سانحے میں مسلح حملہ آوروں نے 135 بچوں کا قتل عام کیا، جن میں فضل خان کا چودہ سالہ صاحبزادہ عمر خان بھی شامل تھا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ’اے پی ایس شہدا فورم‘ کے صدر فضل خان ایڈوکیٹ نے کہا ہم پاکستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے سوال کرتے ہیں کہ تین سال سے پشاور کے حیات آباد علاقے میں ان کے ہائی سکیورٹی سیف ہاوس میں موجود خونی قاتل احسان اللہ احسان اب کہاں ہے…؟ اگر وہ ان کے پاس ہے تو اسے عدالت میں پیش کیوں نہیں کرتے…؟ اگر وہ ان کے پاس سے نکل گیا ہے، تو اس کا ذمہ دار کون ہے…؟ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم لوگوں کو اسی کا خدشہ تھا۔ اسی لیے ہم نے مئی دو ہزار سترہ میں پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ احسان کو ایمنسٹی دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ عدالت نے اسی سال دسمبر میں حکم دیا تھا کہ حکومت احسان اللہ احسان کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی اور اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ فضل خان کے مطابق اس شخص کو کبھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا ہمیں جواب چاہییے کہ سب کس کی ایما پر ہورہا ہے؟ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ سوال کرنے والوں کی جان کو بھی خطرات ہیں اور انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے تو گئے، وہ واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن آئندہ کبھی کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو، ہم اس لیے یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر داخلہ اور وزیر دفاع تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق معاملے پر لاعلمی کا اظہار کر چکے ہیں، جبکہ فوج نے صحافیوں کی طرف سے بارہا پوچھے گئے سوالات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
دوسری طرف احسان اللہ احسان نے سوشل میڈیا پر ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ پاکستانی تحویل سے نکل گیا ہے اور خیر خیریت سے ترکی پہنچ چکا ہے ۔احسان اللہ کے آڈیو بیان کے مطابق اس نے تین سال پہلے پاکستانی سکیورٹی حکام کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت خود کو ان کے حوالے کیا لیکن ڈیل کے تحت جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہ ہوئے۔ تاہم افضل خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ احسان اللہ کو اسی ڈیل کے تحت رہا کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کا الزام ہے کہ احسان اللہ احسان جیسے قاتلوں کو اعلی افسران کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔تاہم پاکستانی فوج ان الزامات کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ فوج نے ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔پاکستانی میڈیا پر بعض ریٹائرڈ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ احسان اللہ احسان نے سرنڈر کرنے کے بعد فوج کے انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور ایسی معلومات دیں جن سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں بڑی مدد ملی۔ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ احسان اللہ احسان نے خود تو لوگوں کو نہیں مارا تھا اور وہ تو محض ترجمان تھا اس لیے ایسے افراد کے لیے گنجائش رکھنی چاہیے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکام میڈیا کے ذریعے لوگوں میں احسان اللہ احسان جیسے جرائم پیشہ شخص کے لیے نرم گوشہ اور ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button