بھارتی خاتون نے تاج محل کی ملکیت کا دعویٰ کیوں کیا؟

تاج محل


بھارتی شہر آگرہ میں سفید سنگِ مرمرسے تعمیر کردہ تاج محل دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے 17ویں صدی میں اپنی محبوب ترین بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ تاہم اب 21ویں صدی میں ایک بھارتی خاتون نے مغل سلطنت کی وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے شاہ جہاں کی محبت کی نشانی تاج محل کی ملکیت کا دعوی کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 68 سالہ انڈین خاتون سلطانہ بیگم کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر مرزا محمد بدر بخت آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے ہیں۔ سلطانہ بیگم کلکتہ شہر کے مضافاتی علاقے میں دو کمروں کے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے شوہر 1980 میں وفات پا گئے تھے جس کے بعد سے وہ بمشکل سرکاری پینشن پر گزارہ کر رہی ہیں۔ شاہی خاندان سے تعلق کا ثبوت پیش کرنے کے لیے سلطانہ بیگم کے پاس اپنے شوہر سے شادی کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے۔ سلطانہ بیگم نے کہا کہ ’کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تاج محل تعمیر کروانے والے بادشاہ کی نسل کشی قدر غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔‘
سلطانہ بیگم نے دہلی کی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے جس میں انہوں نے سترہویں صدی میں تعمیر ہونے والے لال قلعے کی ملکیت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ’مجھے پوری امید ہے حکومت مجھے انصاف فراہم کرے گی۔ جب کوئی چیز کسی اور کی ملکیت ہو تو اسے واپس دینی چاہیے۔‘ سلطانہ کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ انڈین حکومت نے غیر قانونی طور پر ان کی پراپرٹی پر قبضہ کیا ہوا ہے جو دراصل انہیں ورثے میں ملنی چاہیے تھی۔ تاہم دہلی ہائی کورٹ نے اب سلطانہ بیگم کی درخواست ’وقت کا ضیاع‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ سلطانہ بیگم کے وکلا یہ دلیل پیش نہیں کر سکے کہ مغل باشاہ بہادر شاہ ظفر کے 150 سال قبل ملک بدر ہونے کے بعد آخر کسی اور رشتہ دار نے وراثت کا حق کیوں نہیں مانگا۔ سلطانہ بیگم کے وکیل ویوک مور کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل نے عدالت کے حکم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور امید ہے کہ سپریم کورٹ انصاف دے گی۔
یاد رہے کہ اپنی اہلیہ ممتاز محل کی وفات کے بعد ان کی یاد میں شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کرایا تھا جہاں ممتاز بیگم کے ہمراہ وہ خود بھی دفن ہیں۔ ممتاز محل کا انتقال 39 سال کی عمر میں 12 بچوں کو جنم دینے کے بعد زچگی کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوا تھا جس وجہ سے شاہجہان احساس جرم میں مبتلا تھے اور خود کو بیوی کی موت کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ تاج محل کو فن تعمیر کا اعلٰی نمونہ مانا جاتا ہے۔ بھارت جانے والا کوئی بھی سیاح تاج محل دیکھے بنا واپسی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بیالیس ایکڑ پر مشتمل ہے اس میں ایک مسجد اور مہمان خانہ بھی موجود یے۔ کہا جاتا ہے کہ ممتاز محل نے مرتے وقت شاہ جہان سے تاج محل تعمیر کرانے کا وعدہ لیا تھا۔ اس کی تعمیر 1645 میں مکمل ہوئی تاہم مزید دس سال تک اس کی تزئین و آرائش کا کام ہوتا رہا۔ اس پر تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ ہوئے جو آج کے حساب سے پچاس ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔ بیس ہزار مزدوروں کی محنت اس محل کی تعمیر میں شامل ہے۔ آگرہ میں واقع تاج محل کو 1983 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دے دیا تھا۔

Related Articles

Back to top button