عمران خان نے 2020 کی پہلی ٹویٹ ڈیلیٹ کیوں کر دی؟

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے تین جنوری کی شام سال 2020 میں اپنی پہلی ٹویٹ کی جس میں انھوں نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ‘یو پی (انڈین ریاست اتر پردیش) میں انڈین پولیس کا مسلمانوں کے خلاف منظم حملہ۔’ اس کے بعد انھوں نے اسی پیغام کے ساتھ دو اور ٹویٹس کیں۔ بظاہر ان کا مقصد انڈیا میں حال ہی میں سٹیزن امینڈمینٹ ایکٹ (سی اے اے) یعنی شہریت میں ترمیم کے قانون کی منظوری کے بعد ہونے والے ہنگاموں میں مسلمانوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی جانب توجہ مبذول کرانا تھا۔
لیکن پاکستانی وقت کے مطابق شام سوا سات بجے کی جانے والی ٹویٹ صرف اگلے ایک گھنٹے تک ہی ٹوئٹر پر موجود رہی اور اُس دوران وزیر اعظم کو تابڑ توڑ تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر اسے حذف کر دیا گیا۔ اِس تنقید کی وجہ بنی تھی اُس ٹویٹ میں موجود ویڈیو، جو اتر پردیش کی نہیں بلکہ سنہ 2013 میں بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ہے۔
فیک نیوز کو جانچنے والی انڈین ویب سائٹ ‘آلٹ نیوز’ کے شریک بانی محمد زبیر نے اپنی ٹویٹ میں خبر کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان کو ٹیگ کیا اور کہا کہ یہ ویڈیو بنگلہ دیش کی ہے۔ آلٹ نیوز کی خبر کے مطابق سی اے اے کی منظوری کے بعد یہ ویڈیو واٹس ایپ پر کافی پھیلائی جا رہی ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ ‘انڈین ریاست آسام میں پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا اور میڈیا اس ویڈیو کو نہیں دکھائے گا تو اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔’ لیکن حقیقت میں یہ ویڈیو مئی 2013 میں ڈھاکہ میں ہونے والے ان ہنگاموں کی ہے جس میں پولیس نے مقامی مذہبی تنظیم حفاظت اسلام کے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر ڈنڈے برسائے تھے اور ان ہنگاموں میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈان اخبار کے سابق مدیر عباس ناصر نے ویڈیو میں موجود پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ‘یہ لوگ بنگالی بول رہے ہیں، اور ریپڈ ایکشن بٹالین کا یونیفارم پہنے ہوئے جو بنگلہ دیش کی پولیس ہے۔’ اتر پردیش پولیس نے بھی اپنے ٹوئٹر پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو بنگلہ دیش کی ہے اور ساتھ میں چند خبروں کے حوالے دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو کہا کہ شاید یہ آپ کو بہتر معلومات دے سکیں گے۔
عمران خان کی جانب سے ٹویٹ حذف کرنے کے کچھ دیر بعد انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان راویش کمار نے بھی ان کو آڑے ہاتھ لیا اور اپنے ٹوئٹر پر لکھا: ‘فیک نیوز ٹویٹ کرو۔ پکڑے جاؤ۔ ٹویٹ حذف کردو۔ دوبارہ یہ شروع کرو۔’ اس پیغام کے ساتھ انھوں نے ہیش ٹیگ استعمال کیا ‘اولڈ ہیبٹس ڈائی ہارڈ’ یعنی پرانی عادتیں ایسے نہیں ختم ہوتیں۔ انڈیا میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی سماجی کارکن شہلا رشید نے بھی پاکستانی وزیر اعظم کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘پاکستان اکثر جعلی ویڈیوز کی وجہ سے ہمیں مایوس کرتا ہے، حالانکہ ان مظالم کے خلاف بڑی تعداد میں اصل شواہد موجود ہیں۔’
اے آر وائی چینل سے منسلک صحافی ماریہ میمن نے وزیر اعظم کی ٹویٹ پر لکھا کہ ‘جو کوئی بھی یہ اکاؤنٹ چلا رہا ہے اسے نوکری سے نکال باہر کر دینا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمارے وزیر اعظم کی دنیا بھر میں تضحیک ہوئی ہے۔’ جیو چینل سے وابستہ صحافی فیضان لاکھانی نے بھی اسی نکتے کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ اس اکاؤنٹ کو چلانے والے کو نوکری سے برخاست کر دیں، جس پر انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والی صحافی رمشا جہانگیر نے انھیں جواباً کہا کہ ‘اگر اکاؤنٹ چلانے والے بذات خود وزیر اعظم ہوئے تو۔۔۔؟’
ٹویٹ ڈیلیٹ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھائے جانے کے باوجود تاحال وزیراعظم کے اکاؤنٹ یا ان کے دفتر کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ سال مئی میں عمران خان نے ‘فیک نیوز پھیلانے والوں کے لیے ‘سورہ بقرہ کی آیت 42 ٹویٹ کی تھی۔ اس کے علاوہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے عہدے داران اکثر و بیشتر ٹوئٹر پر صحافیوں اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کو آڑے ہاتھ لیتے رہے ہیں اور ان پر فیک نیوز چلانے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے اکتوبر سنہ 2018 میں ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ ‘فیک نیوز بسٹر’ کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد میڈیا میں چلنے والی غلط یا فیک خبروں کی نشاندہی کرنا تھا لیکن اس اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 16 نومبر کے بعد سے اس اکاؤنٹ سے کوئی نئی ٹویٹ نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب عمران خان نے اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے غلط خبر ٹویٹ کی ہو۔ دسمبر سنہ 2017 میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جب عمران خان نے انڈیا کی ایک سابق اداکارہ اور سیاستدان کے بارے میں ٹویٹ کی کہ وہ انتقال کر گئی ہیں اور ان کے گھر سے بڑی تعداد میں سونا، جواہرات اور رقم ملی ہے۔

لیکن بعد میں ان کی تصحیح کی گئی کہ انھوں نے بغیر جانچ پڑتال کیے ٹویٹ کی اور اُس سیاستدان کا نام بھی غلط لیا اور ان کی ٹویٹ میں دی گئی تصاویر بھی ڈکیتیوں کی تھی، نہ کہ انتقال کرنے والے سیاستدان کے گھر سے ملنے والی دولت۔ اسی طرح عمران خان کی اپنی جماعت کے دیگر وزرا اور عہدے داران بھی کئی بار بغیر تحقیق کیے فیک نیوز ٹویٹ کر چکے ہیں۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان چند لوگوں میں شامل ہیں جو عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ تک رسائی رکھتی ہیں، نے گذشتہ سال ستمبر میں خود ایک فیک ویڈیو ٹویٹ کی۔ شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں ایک ویڈیو شیئر کی اور پیغام لکھا کہ ‘انڈین فوج مقبوضہ کشمیر میں پیڑوں پر لگے پھل بھی برداشت نہیں کر سکتی، کہ کہیں مسلمان کشمیری وہ پھل نہ کھا لیں۔’

لیکن حقیقت میں وہ ویڈیو سنہ 2018 کی تھی اور وہ انڈین ریاست ہماچل پردیش میں بنائی گئی تھی جہاں عدالت نے جنگل پر غیر قانونی قبضے کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے پر وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی نے بھی گذشتہ سال اگست میں ایک ویڈیو شیئر کی جس میں پولیس کو تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور وفاقی وزیر نے اس پر لکھا کہ ‘دنیا دیکھے کہ انڈین وزیر اعظم نریندی مودی کی حکومت کشمیر میں کیا کر رہی ہے۔’ لیکن بعد ازاں انھیں جب بتایا گیا کہ وہ ویڈیو کشمیر کی نہیں ہے، تو انھوں نے تصیح کرتے ہوئے ستمبر میں اپنی اگلی ٹویٹ میں کہا کہ وہ ‘غلط تھے اور انھیں بتایا گیا ہے کہ وہ ٹویٹ پرانی تھی۔’

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button