افغان طالبان حقانی اور قندھاری گروہوں میں تقسیم


افغانستان میں طالبان کی حکومت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے، قندھاری طالبان کو شکایت ہے کہ فوجی طاقت وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی زیر قیادت حقانیوں کے ہاتھ میں مرکوز ہے، دوسری جانب حقانیوں کو اعتراض ہے کہ قندھاری طالبان نے تمام سرکاری نوکریاں اپنے ہی لوگوں کو دے دی ہیں۔

یاد رہے کہ افغان طالبان نے افغانستان کا کنٹرول گذشتہ سال اگست میں سنبھالا تھا لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی کی جانب سے اقتصادی پابندیاں لگانے اور افغان مرکزی بینک کے ساڑھے نو ارب ڈالرز کے ذخائر منجمد کرنے کے فیصلوں نے افغان معیشت کو مفلوج کر دیا یے جس سے طالبان حکومت مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔

انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی ایک باغی تحریک سے ایک سیاسی تحریک میں تبدیلی کے عمل نے انہیں اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا یے، طالبان کے سخت گیر نظریاتی دھڑوں کی جانب سے حکومت کی مخالفت نے طالبان حکومت کو بھی مختلف دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔

افغان طالبان کا قندھاری کہلوانے والا نظریاتی دھڑا القاعدہ کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کا حامی ہے جبکہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی زیر قیادت حقانی نیٹ ورک اس کا مخالف ہے۔ یہاں اس پہلو کی اہمیت بھی پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ ان دونوں دھڑوں کے درمیان کوئی واضح لکیر موجود نہیں ہے، عملیت پسند اور سخت گیر عناصر، طالبان کے تمام دھڑوں میں پائے جاتے ہیں جو اس اندرونی تقسیم کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں طاقت کے دو مراکز ہیں جن میں کابل سیاسی اور قندھار نظریاتی مرکز ہے، طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اور ان کی مذہبی کونسل قندھار میں بیٹھی ہے، ہیبت اللہ کی مذہبی کونسل کابل میں سیاسی رہنماؤں کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کر سکتی ہے، مثال کے طور پر مارچ میں طالبان کی کابینہ نے لڑکیوں کے سیکنڈری سکول کھولنے کا فیصلہ کیا، تاہم طالبان کی کابینہ کو اس فیصلے کی وضاحت کے لیے قندھار کا سفر کرنا پڑا جس میں مذہبی کونسل کو اس فیصلے پر تحفظات تھے۔
سخت گیر اور عملیت پسندوں کے درمیان اس اجلاس کے دوران شدید اختلافات کے بعد ہیبت اللہ نے اس فیصلے کو روک دیا اور لڑکیوں کے تمام سکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے سفارشات کی فہرست بنانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا، طالبان گروپوں کے درمیان دھڑے بندی طاقت اور وسائل کی تقسیم کے معاملات کے گرد گھوم رہی ہے

اصل دھڑے بندی حقانی نیٹ ورک اور قندھاری طالبان کے درمیان ہے، قندھاریوں کو شکایت ہے کہ فوجی طاقت حقانیوں کے ہاتھ میں مرکوز ہے۔ دوسری جانب حقانیوں کو اعتراض ہے کہ قندھاری طالبان نے زیادہ تر سرکاری نوکریاں چھین لی ہیں۔

حقانیوں اور قندھاریوں کے درمیان اختلاف کا ایک اور نکتہ افغان جنگ کی فتح کے کریڈٹ پر نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔ قندھاریوں کا کہنا ہے کہ فتح دوحہ معاہدے کے بعد ممکن ہوئی جس میں ملا برادر نے 2020 میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات کو انجام تک پہنچایا۔ اس کے برعکس حقانی کہتے ہیں کہ فتح فوجی جدوجہد کے ذریعے حاصل ہوئی جس کے لیے انہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ حقانیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے امریکہ کے خلاف لڑائی میں خودکش بمباروں کا بڑا حصہ ڈالا جس کی وجہ سے امریکی افواج افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئیں۔ یاد رہے کہ حقانی نیٹ ورک کابل میں اپنے ہائی پروفائل حملوں کے لیے مشہور تھا۔

دوسری جانب غیر پشتون طالبان کو پشتون طالبان کے امتیازی اور متعصبانہ رویے پر تحفظات ہیں، یہ بتانا ضروری ہے کہ طالبان حکومت کی 53 رکنی تمام مرد کابینہ میں 43 پشتون، چار تاجک، دو ازبک اور ایک ایک خواجہ، ہزارہ، نورستانی اور ترکمان ارکان شامل ہیں۔

طالبان میں جنم لیتی نسلی دراڑیں جون میں اس وقت نمودار ہوئیں جب ضلع بلخاب سے تعلق رکھنے والے واحد نسلی ہزارہ شیعہ طالبان کمانڈر مولوی مہدی منحرف ہو کر اپنے علاقے میں واپس چلے گئے اور اپنے سینکڑوں حامیوں کو متحرک کیا۔ اسی طرح فروری میں طالبان نے ایک بااثر ازبک طالبان کمانڈر مخدوم عالم کو معمولی کیس میں گرفتار کیا، جس نے صوبہ فاریاب میں فوری احتجاج کو جنم دیا، کمانڈر مخدوم عالم کو شمال میں طالبان کی تین فوری فتوحات کا کریدٹ دیا جاتا ہے جہاں روایتی طور پر طالبان کمزور تھے۔ اگرچہ طالبان نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے لیکن ان کی طرف سے ایک باغی تحریک سے سیاسی تحریک میں منتقل ہونے اور حکومت کرنے والے ادارے کی صورت اختیار کرنے میں تذبذب دکھائی دیتا ہے۔ اس تبدیلی کے لیے درکار سیاسی لچک اور نظریاتی موافقت کا طالبان میں فقدان ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر طالبان کے نسلی، سیاسی، نظریاتی اختلافات اور اقتدار کی کشمکش قابو سے باہر ہو گئی تو ان کی داخلی تقسیم کے ساتھ شمال میں بڑھتی ہوئی افغان طالبان کی حکومت کو گل بھی کر سکتی ہے۔

Related Articles

Back to top button