الیکشن کمیشن اپریل میں انتخابات کیوں نہیں کروا پائے گا؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے اپریل کی تاریخیں تو تجویز کر دی ہیں لیکن اس شیڈول پر عمل درآمد ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ دوسری جانب وفاقی حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کے شیڈول کو تبدیل کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دونوں نگران صوبائی حکومتوں کو 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخاب کروانے کی تجویز دی ہے، لیکن دوسری جانب وفاقی حکومت نے ملک بھر میں ساتویں مردم شماری یکم فروری سے شروع کروانے کی بجائے یکم مارچ سے یکم اپریل تک کروانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مردم شماری کا نتیجہ 30 اپریل کو جاری کیا جائے گا۔ ترجمان ادارہ شماریات کے مطابق ہر شمار کنندہ کوعلاقے میں دو بلاک دیئےجائیں گے، ایک بلاک پہلے 15 دن میں اور دوسرا دوسرے 15 روز میں مکمل کیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری مکمل ہونے کے بعد اسکی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کو کم از کم دو سے تین ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو حلقہ بندیوں کا عمل جولائی تک مکمل ہو گا اور اگست میں وفاقی حکومت کی آئینی معیاد پوری ہوگی لہذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ صوبوں اور مرکز کے عام انتخابات اگست کے بعد ہی ہو پائیں گے۔

یادرہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دونوں صوبوں کے گورنرز کو خط تحریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں انتخابات 13 اپریل سے پہلے کرانا لازمی ہیں، گورنر خیبرپختونخوا انتخابات کے لیے 15 سے 17 اپریل کے درمیان کی تاریخ الیکشن کے لیے اعلان کریں۔ الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب اور خیبر پختونخوا کو خط میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل کی گئی، اسمبلی تحلیل کی صورت میں الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے، آرٹیکل 105 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنر کا آئینی اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے خط میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے، پنجاب میں انتخابات 13 اپریل سے پہلے کرائے جانے لازمی ہیں، پنجاب میں انتخابات کے لیے 9 اپریل سے 13 اپریل کی تاریخ موزوں ہیں، گورنر پنجاب 9 اپریل سے 13 اپریل کے درمیان کی تاریخ الیکشن کے لیے اعلان کریں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں کہا کہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل کی گئی، خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے 15 اپریل سے 17 اپریل تک کی تاریخ تجویز کی جاتی ہے، گورنر خیبرپختونخوا انتخابات کے لیے 15 سے 17 اپریل کے درمیان کی تاریخ کا اعلان کریں۔

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپریل کے مہینے میں عام انتخابات کروانا اس لیے ممکن نہیں کہ مرد شماری کا عمل یکم مارچ سے شروع ہو کر 30 اپریل کو ختم ہوگا جس کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی دو سے تین ماہ کا وقت لیں گی۔ جب الیکشن کمیشن کے اس موقف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دو صوبوں کے انتخابات 2017 کی پرانی مردم شماری کی بنیاد پر کروائے جا سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ دو صوبوں اور مرکز میں نئی مردم شماری اور دو صوبوں میں پرانی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد ایک بھونڈا مذاق ہو گا۔ لہذا زیادہ امکان یہی ہے کہ اب پورے ملک میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات اگست میں حکومت کی آئینی معیاد مکمل ہونے کے بعد ہوں گے۔ ذرائع کا اصرار ہے کہ آئین کی شق 234 اجازت دیتی ہے کہ اگر ناگزیر حالات پیدا ہوجائیں تو الیکشن کمیشن انتخابات میں چند ماہ کی تاخیر بھی کر سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران نے دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے کیونکہ ایسا کرکے انہوں نے 65 فیصد پاکستان سے اپنی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا ہے جس کے نقصان کا اندازہ ان کو جلد ہونا شروع ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ عمران خان تواتر کے ساتھ وفاقی حکومت سے عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن جب وفاقی حکومت نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا تو انہوں نے دباؤ ڈالنے کے لیے آخری جوا کھیلا اور دونوں صوبائی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ دیے ہیں کیونکہ اب وہ نامساعد حالات میں اگلے الیکشن میں جائیں گے جن کا فوری انعقاد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران نے اپنے دور حکومت میں قومی مالیاتی ایوارڈ دیتے وقت یہ طے کیا تھا کہ نئے انتخابات نئی مردم شماری اور اس کی بنیاد پر ہونے والی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہوں گے۔ تاہم ابھی تک یہ عمل شروع نہیں ہو پایا۔ اس کے علاوہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پرویز الٰہی نے اپنی تین ماہ کی وزارت اعلیٰ کے دوران پنجاب میں پانچ نئے اضلاع اور دس نئی تحصیلیں  تشکیل دے ڈالی تھیں جن کے لیے اب نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیاں کرنا ضروری ہے۔ ایسے میں پنجاب میں نوے روز کے اندر نئے الیکشن کے انعقاد کا امکان نظر نہیں آتا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصول اور قانون کے مطابق یہ ممکن ہے کہ وفاق اور صوبوں میں الگ الگ انتخابات کرائے جائیں لیکن سیاسی اعتبار سے یہ آسان نہیں۔ یہ ایک ناقابل عمل صورتِ حال ہو گی کہ دو صوبوں میں فوری انتخابات پرانی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں جب کہ چند ماہ کے بعد وفاق اور دیگر دو صوبوں میں انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں۔ اس لئے زیادہ امکان یہی ہے کہ پورے ملک میں انتخابات ایک ہی وقت میں موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button