الیکشن کمیشن کا عمران پر توہین عدالت لگانے کا فیصلہ

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کیخلاف مسلسل الزامات کی بارش کے بعد اب الیکشن کمیشن کی جانب سے سابق وزیراعظم کے خلاف جھوٹے الزامات پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ پنجاب کے 20 حلقوں میں 17 جولائی کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی فتح کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ عمران خان الیکشن کمشنر پر مذید الزامات لگانے سے باز آ جائیں گے لیکن الیکشن نتائج کا اعلان ہونے کے بعد سابق وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر سکندر سلطان راجہ پر الزامات لگا دئیے ہیں اور ان سے فوری استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ سکندر سلطان راجہ کو عمران خان نے خود بطور وزیراعظم چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا تھا لیکن فارن فنڈنگ کیس میں اپنے خلاف ممکنہ فیصلہ رکوانے کے لیے وہ مسلسل ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور اب استعفےکا مطالبہ کردیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پیمرا اور دیگر حکومتی اداروں سے عمران خان کی تقاریر کا ریکارڈ حاصل کر لیا گیا ہے اور اب اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے جس کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز کردیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئین میں درج اختیارات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے برابر ہوتے ہیں اور ان پر جھوٹے الزامات لگانے اور انہیں متنازع بنانے واکے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران کو اپنے بیانات پر وضاحت کے لیے نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان نوٹسز کے جواب میں وہ اپنے الزامات کے حق میں ثبوت فراہم نہ کرسکے اور توہین عدالت ثابت ہو گئی تو انہیں پانچ سال تک کے لیے نا اہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات آئین میں دیے گئے ہیں اور ان کے پاس اہنے ادارے یا ذات پر الزام لگانے والوں کے خلاف توہین عدالت کا اختیار موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں کارروائی شروع کردی ہے اور عمران خان کی تقاریر کا جائزہ لینے کے بعد باضابطہ کارروائی شروع ہو جائے گی۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب وہ عمران خان کیخلاف توہین عدالت لگانے والے ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام ‘کیپیٹل ٹاک’ میں گفتگو کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ دراصل عمران کو اس وقت فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے شدید پریشانی لاحق ہے اور وہ بہانوں سے چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران کو سابق اٹارنی جنرل انور منصور کی جانب سے بریفنگ دی گئی ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں ان کے خلاف بڑا فیصلہ سکتا ہے۔ کنور دلشاد نے کہا کہ عمران فارن فنڈنگ کیس میں ساڑھے چار سال تک التوا لیتے رہے، پھر اسکروٹنی کمیٹی کے ذریعے کیس کو لمبے عرصے لٹکائے رکھا اور اب انہیں یہ ڈر ہے کہ الیکشن کمیشن کوئی ایسا فیصلہ نہ دیدیے جس سے وہ اور ان کی جماعت مشکلات کا شکار ہو جائیں۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمیشنر کے پاس سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات ہوتے ہیں۔ ایسے میں عمران خان سے ان کے اس الزام کا آڈیو یا ویڈیو ثبوت بھی مانگا جا سکتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ہر ہفتے مریم نواز حمزہ شہباز سے ملتے ہیں اور انکے پیروں میں بیٹھتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ عمران خان کے پاس ان جھوٹے الزامات کا کوئی ثبوت تو موجود نہیں لہذا وہ بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کا کہنا تھا کہ اب بات زیادہ آگے چلی گئی ہے۔ اب الیکشن کمیشن ممبران کہتے ہیں کہ ہماری رٹ کا سوال ہے، ہماری ساکھ ختم ہو رہی ہے، اس لیے ہمیں ایکشن لینا ہی لینا ہے۔
کنور دلشاد نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کیخلاف فارن فنڈنگ کیس تو ہے ہی لیکن ذیادہ مضبوط کیس توہین عدالت کا ہے جس میں سزا ہونے پر عمران نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔ کنور دلشاد نے کہا کہ عمران بطور وزیراعظم چیف الیکشن کمشنر پر الزام لگا کر تو بچ گئے تھے لیکن اب ان کا بچنا مشکل ہے اور ان کے خلاف کارروائی شروع ہونے والی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر آرٹیکل 204، الیکشن ایکٹ 217 شق 10 کے تحت کارروائی کرنے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن عمران خان کو چارج شیٹ کرنے والا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ غیر جانبداری سے اپنا کام کرتا رہے گا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عمران کے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، ہم انہیں سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے ضمنی الیکشن میں فتح کے باوجود الزام لگایا ہے کہ مسلم لیگ ن کو جتوانے کیلئے الیکشن کمیشن نے بھرپور کوششیں کیں۔ عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا پر بھی الزامات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس سارے عمل کی نگرانی کر رہے تھے، ان کی کوشش تھی کہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست ہو جائے۔ اس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں جس طرح کا دھاندلی زدہ الیکشن کرایا گیا ہے، اگلے عام انتخابات بھی ویسے ہی ہوں گے، لہازا دھاندلی کے الزامات سے بچنے کا سب سے صاف اور شفاف راستہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔