امریکی قانون سازوں کا پاکستان پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ


وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس اور انکے امریکہ اور مغرب مخالف بیانیے کے بعد ایک امریکی قانون ساز نے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دینے کا مطالبہ کر دیا یے جبکہ دیگر دو قانون سازوں نے واشگٹن میں پاکستانی سفیر مسعود خان کے کشمیری اور پاکستانی جہادی گروپوں سے منسلک ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس پاکستان مخالف تحریک کا آغاز پینسلوانیا سے ریپبلکن رکن کانگریس اسکاٹ پیری نے کیا۔ ان کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں مطالبہ کیا گیا کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ریاست قرار دیا جائے‘۔
یہ بل امریکی ایوان کی خارجی امور کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس بل میں پاکستان کی مالی مدد، دفاعی الات کی برآمدات اور خرید پر پابندی، دوہری استعمال اشیا کی برآمد پر پابندی سمیت متفرق مالی اور دیگر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قانون ساز نے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی پاکستانی ریاست کے ساتھ تجارت کرنے والے افراد اور ممالک کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک امریکہ نے 4 ممالک کو دہشتگردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کی لسٹ میں شامل کر رکھا ہے، جس میں کیوبا، شمالی کوریا، ایران اور شام شامل ہیں۔
9 مارچ 2022 کو 3 قانون سازوں اسکاٹ پیری، گریگری اسٹوبی اور میری ای میلر نے امریکی اٹارنی جنرل میرک گالینڈ کو خط ارسال کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکہ میں تعینات ہونے والے پاکستانی سفیر مسعود خان کے ماضی میں کشمیری اور پاکستانی جہادی عناصر کیساتھ قریبی
تعلقات رہے ہیں۔ مسعود خان امریکا کے لیے پاکستان کے نئے سفیر ہیں، جو پہلے بھی نیو یارک میں اسلام آباد کے مستقل نمائندہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، اور اگست 2021 تک ازاد کشمیر کے صدر بھی رہے ہیں۔
تینوں امریکی قانون سازوں نے مسعود خان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ فروری 2022 میں ایک اور امریکی قانون ساز نے مسعود خان کی تعیناتی روکنے کی کوشش کی تھی لیکن بائیڈن انتظامیہ نے ان کا احتجاج مسترد کرتے ہوئے ان کی تقرری کی تصدیق کی تھی۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی قانون سازوں کی جانب سے پاکستان کو دہشت گرد ریاستوں میں شامل کرنے کا مطالبہ وزیع اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس اور ان کے امریکہ اور مغرب مخالف بیانیے کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔

Related Articles

Back to top button