اگر جی ایچ کیو عمران کے لیے اپنا گیٹ کھول دے تو کیا ہوگا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں صرف دو حقیقتیں ہیں، پہلی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور دوسری اقتدار، اور ہمارے سیاست دان اقتدار کے لیے کسی بھی لیول تک گر سکتے ہیں۔ آپ دور نہ جایئے، فروری 2022 کے اخبارات اور ٹیلی ویژنز کے ویڈیو کلپس نکال کر دیکھ لیجیے، اس کے بعد آپ اپریل کے ٹی وی کلپس دیکھ لیجیے اور اخبارات کا مطالعہ کر لیجیے۔ آپ کو پاکستان کا مستقبل سمجھ آ جائے گا۔

آپ کو آج کی پی ڈی ایم حکومت 12 جماعتوں کے ساتھ عمران خان کی جگہ کھڑی نظر آئے گی اور اپریل کے بعد عمران پی ڈی ایم کی جہاں کھڑے دکھائی دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب لوگ مل کر صرف ایک کام کرتے نظر آئیں گے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنا، پی ڈی ایم جماعتیں چار سال تک اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرتی رہیں اور یہی کام آج عمران خان کر رہے ہیں۔ جاوید چوہدری کہتے ہی کہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر آج عمران کے لیے آج جی ایچ کیو کا گیٹ نمبر چار کھل جاتا ہے تو موصوف کی حقیقی آزادی کی جنگ وہیں نہیں جا گھسے گی جہاں سے نکلی تھی۔ اگر ایسا ہی یے تو پھر آپ اپنے دل پر دوسرا ہاتھ رکھ کر یہ جواب بھی دیجیے کہ کیا ہم ایسی اخلاقیات والی لیڈرشپ کخ زیر قیادت بطور قوم آگے بڑھ سکتے ہیں؟

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں ک جنرل قمر باجوہ کی تعیناتی سے پہلے ملک میں دو اہم واقعات ہوئے‘ تین اپریل 2016 کو پاناما پیپرز آئے جن میں نواز شریف فیملی کی غیر ملکی کمپنیاں اور جائیدادیں نکل آئیں‘ عمران خان کے ہاتھ ایک اور کارڈ آ گیا اور انھوں نے نواز شریف کو چور ثابت کرنا شروع کر دیا۔ دوسرا واقعہ ڈان لیکس تھا‘ یہ خبر 6 اکتوبر 2016 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے شایع ہوئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ نے اسے سیکیورٹی بریچ قرار دے دیا‘ تحقیقاتی کمیٹی بنی اور میاں نواز شریف نے پرویز رشیداور طارق فاطمی کے قلم دان واپس لے لیے تاہم حکومت نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا یہ دونوں ایشوز جان بوجھ کر بنائے گئے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد 29 نومبر 2016 کو جنرل قمر باجوہ نے فوج کی کمان سنبھال لی‘ انھیں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ صرف اور صرف نواز شریف نے کیا تھا تاہم اس میں اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کا بھی کردار تھا مگر فیصلہ بہرحال میاں صاحب نے کیا اور اس کی وجہ صرف ایک تھی‘ میاں صاحب جانتے تھے جنرل باجوہ جمہوریت پسند ہیں‘ اور وہ کسی بھی حال میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے‘ بہرحال جنرل باجوہ آئے اور انھیں ورثے میں پاناما کیس اور ڈان لیکس مل گئیں۔
ڈان لیکس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بلاوجہ نزع کا باعث بنی ہوئی تھیں‘ عمومی طور پر یہی خیال کیا جارہا تھا کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آئے گی‘ حکومت ذمے داروں کو فارغ کر دے گی اور یوں یہ ایشو ختم ہو جائے گا‘ حکومت نے 29 اپریل 2017 کو انکوائری رپورٹ جاری کر دی اور تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم آفس سے نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔

لیکن حیران کن طور پر دوسری جانب سے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ’’نوٹیفکیشن ری جیکٹڈ‘‘ کی ٹویٹ آ گئی‘ حکومت اس ٹویٹ کے بعد کم زور ہو گئی‘ بہرحال افہام و تفہیم سے ڈان لیکس کا معاملہ نبٹ گیا‘ اور 10مئی 2017 کو ٹویٹ واپس ہو گئی‘ حکومت مضبوط ہو گئی لیکن ریٹائرڈ آرمی آفیسرز نے آرمی چیف پرتنقید شروع کر دی۔جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اس دوران ن لیگ نے بھی شیر زندہ باد کا بیانیہ شروع کر دیا‘ جو مریم نواز کے میڈیا سیل کا کارنامہ تھا اور یہ ان لوگوں کی بڑی سیاسی غلطی تھی‘ یہ لوگ اگر خاموش ہو جاتے‘ فتح کے شادیانے نہ بجاتے تو معاملہ آگے نہ بڑھتا لیکن ان کی غیر سنجیدہ حرکت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دراڑ میں اضافہ کر دیا اور یہ بڑھتی چلی گئی۔

جنرل باجوہ کھلے دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں نواز شریف ان کے ساتھ ہمیشہ عزت سے پیش آئے اور ان کے ان سے تعلقات بہت اچھے تھے ‘ پاناما پیپرز میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ یہ انٹرنیشنل لیکس تھیں‘ یہ ہوئیں اور عمران خان نے یہ کیچ پکڑ لیا‘ وزیراعظم ہاؤس کی ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ’’آپ یہ معاملہ عدالت میں نہ لے کر جائیں‘ اسے پارلیمنٹ میں ہی حل کر لیں۔ یہ ایشو اگر عدالت چلا گیا تو کوئی ادارہ اور شخص آپ کی مدد نہیں کر سکے گا‘‘ وزیراعظم کا جواب تھا ’’میرے بچے پُراعتماد ہیں‘ انھیں عدالت جانے دیں‘ اللہ کرم کرے گا‘‘ اور حکومت سپریم کورٹ چلی گئی اور یوں یہ معاملہ بگڑتا چلا گیا‘ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا‘ وزیراعظم کو تحقیقات میں ایجنسیاں شامل نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر وہ نہ مانے اور اس کے بعد معاملہ پھیلتا چلا گیا۔

نواز شریف کے قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی تعیناتی وزیراعظم کی خواہش پر ہوئی تھی‘ جنرل نوید مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے رشتے دار تھے اور مریم صاحبہ کا خیال تھا ان کی وجہ سے ان کی فیملی کو پاناما کیس میں ریلیف ملے گا‘ آرمی چیف نے جنرل نوید مختار کی تعیناتی کے وقت وزیراعظم سے کہا تھا‘ سر فوج چین آف کمانڈ کا نام ہے۔

یہاں کوئی ایک شخص اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ نواز شریف نے آرمی چیف سے دوسری پرسنل ریکویسٹ 2017 میں کی تھی‘ نواز شریف کو گلہ تھا‘ مریم نواز سے جے آئی ٹی کے دو افسران کا رویہ ٹھیک نہیں ہے‘ اس کے بعد دونوں آفیسرز کا رویہ بدل گیا اور مریم نواز نے دوبارہ ان کی شکایت نہیں کی‘ اسٹیبلشمنٹ کے ذرایع بھی یہ تسلیم کرتے ہیں نواز شریف نے ان دو ایشوز کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی کوئی پرسنل کام نہیں کہا تھا‘ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں پاناما کیس کے دوران نواز شریف کو یہ مشورہ دیا گیا تھا۔ آپ مستعفی ہو جائیں اور اپنی پارٹی کے کسی ایم این اے کو وزیراعظم بنا دیں‘ یہ معاملہ ایک دو سال میں سیٹل ہو جائے گا اور آپ دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم بن جائیں گے مگر نواز شریف نہیں مانے تھے تاہم انھیں ڈس کوالی فکیشن کے بعد اگست 2017 میں شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانا پڑ گیا‘ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب اگر یہ فیصلہ چند ماہ قبل کر لیتے تو شاید جیل تک نوبت نہ آتی۔

بقول جاوید چودھری، دوسری طرف بعض ذرائع یہ تسلیم کرتے ہیں نواز شریف اگر ڈس کوالی فکیشن کے بعد ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ نہ بناتے‘ اور اگر خاموش بیٹھ جاتے اور انکی پارٹی اپنی حکومتی مدت پوری کر کے الیکشن میں چلی جاتی تو شاید عمران خان وزیراعظم نہ بن پاتے‘ یہ حقیقت ہے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران کی طرف دھکیل دیا۔ 2018 کے الیکشنز میں جہانگیر ترین کے جہاز سے لے کر لوٹا سازی تک تمام ہتھکنڈے استعمال ہوئے‘ عمران کو تاریخی سپورٹ دی گئی لیکن یہ اس کے باوجود الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کر سکے چناں چہ انھیں وزیراعظم بنانے کے لیے اتحادیوں کا بندوبست کرنا پڑ گیا اور یوں اگست 2018 میں عمران وزیراعظم بن گئے۔

Related Articles

Back to top button