ایف آئی آر کے معاملے پر پنجاب پولیس بحران کا شکار


حمزہ شہباز شریف کی بطور وزیراعلیٰ فراغت اور چوہدری پرویز الٰہی کے وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد سے پنجاب پولیس غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے باعث مسلسل بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ ایک طرف سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر پرویز الٰہی کی محبت میں وفاقی حکومت کے ہاتھوں معطل ہو چکے ہیں تو دوسری طرف آئی جی پنجاب فیصل شاہکار تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی جانب سے مستعفی ہونے کے مطالبے کے بعد وفاق کو اپنی خدمات پنجاب سے واپس لینے کی درخواست کر چکے ہیں۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی جانب سے سینئر پولیس افسران پر حریف جماعتوں کے وفادار ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو 24 گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عدالت خود سوموٹو نوٹس لے گی۔

یہ تنازع وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے حالیہ اقدام سے واضح ہوتا ہے جس نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر ملازمت سے معطل کر دیا۔ یاد رہے کہ غلام محمد ڈوگر وفاقی حکومت کے ملازم ہیں لیکن کیونکہ ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ میں باقی ہیں اسلئے وہ اپنی وفاداریاں بدل کر ایک سیاستدان کی طرح پرویز الٰہی کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل چکے ہیں اور ان کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔

دوسری جانب آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی قیادت میں صوبے میں موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا، یہ ردعمل پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کی جانب سے ایک ریلی کے دوران ان کے خلاف نفرت انگیز اور توہین آمیز ریمارکس کے نتیجے میں سامنے آیا۔ اسد عمر نے لبرٹی چوک لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فیصل شاہکار سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتے تو فوری طور پر استعفیٰ دے دیں۔ تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد عمر کو بنیادی طور پر استعفیٰ دینے کا مطالبہ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی سے کرنا چاہیے تھا کیونکہ انہوں نے آئی جی پنجاب کو ایف آئی آر درج کرنے سے روک رکھا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اس میں موجودہ ڈی جی “سی” میجر جنرل فیصل نصیر کو بطور ملزم نامزد کیا جائے۔ پرویز الٰہی آئی جی پنجاب کو واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ ایف آئی آر میں مرکزی ملزم نوید احمد کے علاوہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کا نام شامل کیا جائے لیکن فوجی افسر کو نامزد نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی عمران خان کو بھی صاف جواب دے چکے ہیں لیکن گالی گلوچ آئی جی پنجاب کے خلاف کی جا رہی ہے جس سے پورے صوبے کی پولیس کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے۔

چنانچہ آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے نہ صرف وفاق کو تحریری طور پر اپنی خدمات پنجاب سے واپس لینے کی درخواست کی ہے بلکہ چوہدری پرویز الٰہی کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا ہے۔ اس پیشرفت سے واقف ایک عہدیدار نے بتایا کہ فیصل شاہکار نے محکمہ پولیس میں بار بار سیاسی مداخلت اور پولیس پر پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے حالیہ تنقید پر وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے شکوہ کیا۔ فیصل شاہکار نے کہا کہ حکومت پنجاب صوبے بھر میں براہ راست تعیناتیاں کر رہی ہے اور اپنی پسند کے فیصلے لینے کے لیے آر پی اوز اور ڈی پی اوز سے رابطہ کر رہی ہے۔ فیصل شاہکار نے وزیراعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر بلاجواز تنقید اور اس کے بعد شاہ محمود قریشی کے نفرت انگیز ریمارکس محکمہ پولیس کے لیے ناقابل قبول ہیں۔

خیال رہے کہ لاہور میں ایک جلسے کے دوران آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ’آئی جی پنجاب! اگر آپ اپنے ڈی پی او اور ایس ایچ او کے ذریعے ایف آئی آر درج کرانے کی ہمت نہیں کر سکتے تو میں آپ کی وردی پر لعنت بھیجتا ہوں‘۔ اس کے بعد آئی جی پنجاب نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھا اور حکومت پنجاب سے اپنی خدمات واپس لینے کی درخواست کی۔ فیصل شاہکار نے کہا کہ پولیس افسران کی تعیناتیوں اور تبادلوں پر وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس کے درمیان اختلاف معمول کا معاملہ ہے لیکن یہ صورت حال مختلف تھی، پنجاب میں موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے پنجاب پولیس کو مکمل طور پر سیاست زدہ کر دیا گیا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’صوبائی پولیس چیف کی حیثیت سے یہ میرے لیے کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں تھا اور میں نے موجودہ حالات میں کام کرنے سے انکار کرنا ہی بہتر سمجھا‘۔ اس سے پہلے پنجاب پولیس کی جانب سے ایک باضابطہ بیان میں شاہ محمود قریشی کے جارحانہ ریمارکس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا، ترجمان نے کہا کہ تضحیک آمیز ریمارکس کا استعمال انتہائی افسوسناک اور غیر اخلاقی ہے اور ایسی نامناسب گفتگو کرنے سے پہلے اسد عمر جیسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button