ایک جہادی جرنیل کی پراسرار گمشدگی کی کہانی

عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ 37 برس تک پاکستانی فوج میں چیف آف جنرل سٹاف اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز ریٹائرمنٹ کے بعد انکی تنظیم کا حصہ بن گئے تھے اور یہ کہ گرفتاری کے بعد فوج کی حراست میں انکی موت ہو چکی ہے۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کے بیٹے میجر ریٹائرڈ ذیشان شاہد کا کہنا یے کہ ان کے والد زندہ ہیں اور ایک تبلیغی مشن پر افریقہ کے کسی ملک میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ سال پہلے لاپتہ ہوجانے والے لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کے حوالے سے عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی علاقائی شاخ کی طرف سے جاری کردہ ایک میگزین ’نوائے افغان جہاد‘ کے فروری 2020 ایڈیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کا القاعدہ سے قریبی تعلق تھا اور ان کا پاکستانی فوج کی حراست میں انتقال ہو چکا ہے۔ القاعدہ کی علاقائی تنظیم القاعدہ برصغیر کے میگزین ’نوائے افغان جہاد‘ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جنرل (ر) شاہد عزیز کے کالعدم تنظیم کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور وہ چند برس قبل فوت ہو چکے ہیں، ’نوائے افغان جہاد‘ کے فروری 2020 ایڈیشن میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جنرل شاہد عزیز نے 2015 میں چشم کشا حقائق پر مبنی ایک کتاب القاعدہ کو دی تھی جس کا اردو ترجمہ القاعدہ کے مجلے میں شائع کیا جا رہا ہے۔ نوائے افغان جہاد میں اس کتاب کا نام ’War against Terrorism and the Concept of Jehad‘ درج کیا گیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب محفوظ رکھنے کےلیے لیفٹینینٹ جنرل شاہد عزیز نے ایم اے کے مقالے کے طور پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی جمع کروا رکھی ہے۔
کالعدم القاعدہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنرل شاہد عزیز القاعدہ برصغیر کے ذمہ دار اور مجلہ نوائے افغان جہاد کے مدیر حافظ طیب نواز سے ملاقات کے بعد افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا کفارہ ادا کرنے کے مقصد سے القاعدہ میں شامل ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ جنرل شاہد عزیز ماضی میں پاکستان فوج کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں، وہ 37 سالہ ملازمت کے بعد 2005 میں پاکستانی فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جنرل شاہد عزیز نے 1971ء کی جنگ لڑی، سیکنڈ لیفٹیننٹ سے تھری اسٹار جنرل تک پاک فوج کے پورے کمانڈ سسٹم کا حصہ رہے، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز، چیف آف جنرل اسٹاف اور لاہور کے کور کمانڈر بھی رہے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کےلیے چیئرمین نیب بھی رہے۔ جنرل شاہد عزیز جنرل پرویز مشرف کے رشتے دار بھی تھے، تین نسلوں سے فوجی تھے ان کے والد بھی فوج میں تھے وہ بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے، ان کے صاحبزادے ذیشان شاہد بھی پاک فوج کا حصہ رہے اور بطور میجر ریٹائرڈ ہوئے۔
جنرل شاہد عزیز نے ریٹائرمنٹ کے بعد ’یہ خاموشی کہاں تک‘ کے نام سے اپنی آٹو بائیو گرافی لکھی جو مشرف پر کڑی تنقید کے باعث خاصی متنازعہ تھی۔ اس کتاب کو فوج کے خلاف سازش قرار دیا گیا اور جنرل شاہد عزیز کے کورٹ مارشل کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ شاہد عزیز کا 2016 میں اچانک غائب ہو جانا ابھی تک ایک معمہ ہے، ان کے غائب ہونے کے بعد مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کی جانے لگی تھیں۔ 2018 میں یہ باتیں بھی سامنے آئی تھیں کہ وہ افغانستان یا شام میں امریکہ کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ 19 مئی 2018 کو یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ شاہد عزیز کی لاش پاک افغان بارڈر کے قریبی علاقے سے ملی ہے۔ 20 مئی 2018 کو شاہد عزیز کے بیٹے ذیشان شاہد نے اپنے والد کی موت کی خبروں کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد اس وقت تبلیغی مشن پر افریقہ میں موجود ہیں، وہ خیریت سے ہیں۔ ان کی موت کی اطلاعات کی کبھی تصدیق نہیں ہوسکی لیکن القاعدہ برصغیر نامی تنظیم کے علاقائی اردو زبان کے میگزین ’نوائے افغان جہاد‘ کا یہ دعویٰ دو سال سے جاری افواہوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔
واضح رہے کہ القاعدہ برصغیر کی بنیاد القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے 2014 میں رکھی تھی جس کا مقصد پاکستان، بھارت، افغانستان، میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومتوں سے جنگ کرنا تھا۔ اس تنظیم کی جانب سے خطے میں داعش کے حریف کے طور پر سامنے آنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اسے اپنے حملوں میں زیادہ کامیابی نہیں مل سکی۔ یاد رہے کہ افغان حکام نے اکتوبر 2019 میں اعلان کیا تھا کہ امریکی افواج کے ساتھ ایک مشترکہ آپریشن میں ہلمند صوبے میں القاعدہ برصغیر کے سربراہ کمانڈر عاصم عمر کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ عاصم عمر پر پاکستان نیوی کے باغی اہلکاروں کی مدد سے کراچی نیول ڈاکیارڈ پر حملے کا الزام تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button