ایم کیو ایم روایتی بلیک میلنگ پر کیوں اترآئی؟

کراچی میں مسلسل تنزلی کی شکار ایم کیوایم شہر میں دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہوکر بلیک میلنگ اور دھونس دھمکیوں پر اتر آئی ہے۔ ایم کیوایم قیادت نےسندھ حکومت کی جانب سے دفاترکا مسئلہ حل نہ کرنے اور حلقہ بندیوں کی درستگی نہ کرانے پر ایک ہفتے کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ 12 فروری سے مرکزی دفتر فوارہ چوک پر منتقل کر دیں گے اور شہر بھر میں دھرنوں کا سلسلہ شروع کریں گے۔ متحدہ اس وقت شہر میں افراتفری پھیلانا چاہتی ہے  جب شہر میں بحری امن مشقوں کا سلسلہ شروع ہورہا ہے اور دنیا بھر سے مختلف ممالک کے مندوبین کراچی آ رہے ہیں۔جبکہ دوسری جانب پی ایس ایل 8 کا آغاز بھی ہونے جا رہا ہے۔ شہر میں افراتفری کے دوران متحدہ لندن اور اس سے گٹھ جوڑ کرنے والی سندھ دیش ریولوشنری آرمی (S.R.A) کے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح اپنے مفاد کی خاطر متحدہ شہر کا امن خراب کرنا چاہتی ہے۔

 

واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے متحدہ پاکستان کے بائیکاٹ کے باوجود کوئی اثر نہیں پڑا تھا اور متحدہ پاکستان کو بار بار الیکشن میں ناکامی نظر آرہی تھی اور الیکشن رکوانے کے تمام تر جواز مسترد ہو گئے تھے۔ جس کے بعد ضمنی اور عام انتخابات کے حوالے سے اپنی ناکامی نظر آرہی ہے۔ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال گروپوں کی شمولیت کا متحدہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ کارکنوں اور ہمدردوں کی تعداد نہیں بڑھ سکی بلکہ تنازعے شدید ہوتے جارہے ہیں۔متحدہ پاکستان بلدیاتی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے کوشش کرتی رہی۔ سندھ اور وفاق پر دبائو ڈالا گیا۔ وزیراعظم پاکستان چند روز قبل کراچی آئے تھے تو متحدہ کا خیال تھا کہ ملاقات کر کے دفاتر کا مسئلہ حل کرائیں گے کہ دفاتر کے بغیر سیاسی سرگرمیاں ٹھپ ہورہی ہیں۔

 

5فروری کو ایم کیو ایم پاکستان کے بہادر آباد مرکز کے عقبی گرائونڈ میں جنرل ورکرز اجلاس رکھا گیا۔ جس میں تینوں دھڑوں کے چند سو کارکن ہی آسکے۔ ان کی تعداد دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ شہر میں دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکیں گے۔ ادھر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے بعد 9 خالی نشستوں پر 16 مارچ کو ضمنی الیکشن ہیں۔ متحدہ نے اپنی حرکتوں اور ناقص کارکردگی کے باوجود چھینی گئی نشستوں کو واپس لینے کے لیے بھرپور سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ جبکہ عنقریب کراچی میں مردم شماری شروع ہونے والی ہے جس کے لیے کراچی کے شہریوں کو کہا گیا ہے کہ ہر فرد ضرور انٹری کرائے۔ اس طرح دوبارہ مردم شماری کا مسئلہ تو حل ہو جائے گا۔ جبکہ بلدیاتی حلقہ بندیوں میں 53 یوسیز کی کمی کا شور کیا جارہا ہے کہ حلقہ بندیاں درست کی جائیں۔ اصل مسئلہ دفاتر کا ہے کہ طاقتور حلقے کسی صورت ان کو دوبارہ موقع نہیں دینا چاہتے ہیں کہ دفاتر کھول کر ماضی کی طرح ملک دشمنی کریں۔ ادارے بھی جانتے ہیں کہ متحدہ پاکستان کے شیلٹر میں متحدہ لندن پروان چڑھ رہی ہے۔

 

مصطفیٰ کمال کے گروپ میں آنے والے ٹارگٹ کلرز، دہشت گرد ہوں یا فاروق ستار گروپ کے متحدہ لندن سے رابطوں والے ذمہ دار یا کارکن ہوں، شہر میں متحدہ پاکستان خود کو کلیئر کرا رہی ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر لندن گروپ شہر میں کنٹرول کا دعویٰ کررہا ہے۔ متحدہ پاکستان کے رہنمائوں نے جنرل ورکرز اجلاس میں اعلان کیا کہ 12 فروری اتوار سے شہر کے وسط میں گورنر ہائوس کے قریب فوارہ چوک پر مرکزی دفتر منتقل کر دیں گے اور کارکن بوریا بستر لے کر آئیں اور دھرنے شروع کریں۔ پورے شہر کی سڑکیں فوارہ چوک کی طرف آتی ہیں۔ فوارہ چوک پر دھرنے سے صدر، ٹاور، ریڈ زون، شاہراہ فیصل سب متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متحدہ پاکستان نے اپنے ایم این اے، ایم پیز، سیکٹر انچارجوں، یوسی (یونٹ) انچارجز، لیبر ڈویژن کے ذمہ داروں، اے پی ایم ایس او، رابطہ کمیٹی کو ٹاسک دیا ہے کہ شہر میں آگاہی مہم شروع کر کے دھرنے میں زیادہ لوگوں کو لایا جائے۔

 

ان دنوں میں شہر کے اندر بین الاقوامی میری ٹائم نمائش، امن مشقوں 2023ء کے انعقاد اور پی ایس ایل 8 کے ایونٹ  کے حوالے سے سیکورٹی ادارے ریڈ الرٹ ہوں گے اور زیادہ توجہ اس جانب ہو گی۔ ان حالات میں متحدہ پاکستان کی جانب سے شہر میں امن خراب کرنے کے لیے دھرنے کی افراتفری نقصان دہ ہوگی بدترین ٹریفک جام ہو گی جبکہ ریلیوں، دھرنے سے خراب صورت حال پیداہو سکتی ہے اور اس دوران متحدہ لندن اور اس سے گٹھ جوڑ کرنے والی سندھ کی علیحدگی پسند تنظیم سندھ ریلوشیری آرمی  کے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button