باغی علی وزیر کو ضمانتوں کے باوجود رہائی کیوں نہیں ملتی؟

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والے گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور عوام کو اکسانے کے الزام پر دائر کردہ تیسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور کر لی لیکن دو برس سے قید پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما کی رہائی نہیں ہو پا رہی جسکی بنیادی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی ہے۔ یاد رہے کہ علی وزیر کے خلاف دائر بغاوت کے دو مقدمات میں پہلے ہی ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔
پی ٹی ایم کے رہنماؤں علی وزیر، عالم زیب اور قاضی طاہر پر جنوری 2019 میں سہراب گوٹھ کراچی میں ایک عوامی جلوس کے دوران سکیورٹی اداروں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانے والی تقریر کرکے غداری کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے سنٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں علی وزیر کے خلاف دائر بغاوت کے تیسرے کیس میں دونوں طرف سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اب فیصلہ سناتے ہوئے جج نے علی وزیر کی ضمانت 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے جیل حکام سے کہا کہ اگر کسی اور کیس میں انہیں تحویل میں رکھنے کی ضرورت نہ ہو تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی کو ابھی تک رہائی نہیں مل پائی۔
جب رہائی نہ ملنے کی وجہ جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو علی وزیر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ پولیس حکام کاموقف ہے کہ انہیں ایک اور مقدمے میں رہائی درکا رہوگی کیونکہ انہیں کراچی کے بوٹ بیسن پولیس اسٹیشن میں درج چوتھے مقدمہ بغاوت کا بھی سامنا ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اس چوتھے بغاوت کیس کی ایف آئی آر کے مطابق علی وزیر، عالم زیب اور قاضی طاہر سمیت پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں نے 20 جنوری 2019 کو الآصف اسکوائر کے عقب میں واقع گراؤنڈ میں ایک جلوس نکالا تھا اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے والی تقاریر کی تھی ،یاد رہے کہ خیبر پختونخوا سے گرفتار کیے گئے عالم زیب کو موجودہ کیس میں ٹرائل کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں خارج کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا تھا جبکہ قاضی طاہر کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا، ان کی بھی اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے بعد از گرفتاری ضمانت منظور کر لی تھی۔ ملزمان کے خلاف ریاستی مدعیت میں ہنگامہ آرائی کرنے، غیر قانونی اکٹھ کرنے اور فساد پھیلانے کے الزامات کے تحت سہراب گوٹھ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
علی وزیر اور دیگر کو 31 دسمبر 2020 کو نفرت انگیز تقاریر، بغاوت اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے سے متعلق چار مقدمات کے اندراج کے بعد گرفتار کرکے کراچی سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا، ان کے خلاف میران شاہ تھانے میں اسی نوعیت کا پانچواں مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ لہذا اگر انکی چوتھے کیس میں ضمانت ہو بھی جاتی ہے تو انہیں پانچویں کیس میں بھی ضمانت لینا ہوگی تاکہ وہ رہائی پا سکیں۔ تاہم سچ تو یہ ہے کہ علی وزیر کی ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہوتی ہے تو دوسرا مقدمہ درج کر کے انہیں پھر سے گرفتار کرلیا جاتا ہے لہذا یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی دور نہیں ہوتی ہے۔