تحریک طالبان کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش شروع


ماضی میں دہشت گرد تنظیم قرار دی گئی تحریک طالبان پاکستان کو قومی دھارے میں واپس لانے اور ہتھیار پھینکنے پر مجبور کرنے کے لئے کوششوں میں تیزی آ گئی ہے لیکن دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا، خصوصا افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت میں بھی یہ غلط فہمی پیدا ہو چکی ہے کہ وہ بھی افغانستان کی طرح پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت پاکستان کا ہتھیار ڈالنے کا سب سے بڑا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی عسکری حکام کے ساتھ افغانستان میں جاری بات چیت کے دوران تحریک طالبان کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی تجویز دی گئی ہے۔ طالبان کو قومی دھارے میں میں لانے کے حوالے سے فوجی قیادت نے حکومت کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔ حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی ٹی ٹی پی کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کھلے دل کا مظاہرہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی، ٹی ٹی پی کی قیادت میں بعض عناصر کی جانب سے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی آمادگی بھی ظاہر کی گئی جس کے تحت وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، اور ایک سیاسی جماعت کے طور پر منظم ہو سکتے ہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان کے کچھ مطالبات ایسے ہیں جن کو تسلیم کرنا ممکن ہی نہیں۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالبان ہتھیار پھینکنے سے انکاری ہیں اور فاٹا کے خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کا اقدام بھی ریورس کروانا چاہتے ہیں جس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی تھی۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویسے بھی ٹی ٹی پی پر بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ مذاکرات کے مستقبل اور ان کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کئی سوالات ابھی تک زیر غور ہیں۔ اس اعتماد کی کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی دسمبر 2007 میں اپنے قیام کے بعد سے قبائلی اضلاع میں امن کے بدلے مذاکرات کے متعدد ادوار کے دوران کیے گئے اپنے وعدوں سے مکر چکی ہے۔ اگست 2021 میں نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا اور افغان طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے نے پاکستانی طالبان کو بھی ایک نئی زندگی دی ہے کیونکہ اس نے ناصرف خود کو منظم کیا بلکہ دوبارہ سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کر دیے جن کے بعد پاکستانی عسکری حکام نے اسے ایک سیاسی طاقت تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ مذاکرات شروع کردیے۔

ان مذاکرات میں افغانستان کی طالبان حکومت سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ تاہم پاکستانی حکام تحریک طالبان کی جانب سے سے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو ختم کرنے کے مطالبے پر حیران ہے کیونکہ یہ ایک سیاسی مطالبہ ہے جس کا بنیادی مقصد قبائلی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے۔ اگرچہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے فوری طور پر ٹی ٹی پی کے مطالبے کو مسترد کر دیا تاہم گروپ کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران ضم شدہ اضلاع کی واپسی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔ گروپ کے سابق رہنماؤں کے مقابلے میں نور ولی محسود کا رویہ واضح دکھائی دیا اور ان کا لہجہ اپنے پیشروؤں کے جارحانہ موقف کےمقابلے میں ایک بڑے فرق کی عکاسی کررہا تھا۔ سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل سابقہ ​​فاٹا کو 2018 میں 25ویں ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ مذہبی اور قوم پرست جھکاؤ رکھنے والی کچھ سیاسی جماعتیں جیسے فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر بااثر قبائلی عمائدین انضمام کی مخالفت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں جمود کے حامی عناصر نے بھی سابقہ ​​فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا۔ فاٹا کے انضمام کو واپس لینے کا مطالبہ ٹی ٹی پی بعض سیاسی قوتوں اور ان لوگوں کا مشترکہ ہدف بن سکتا ہے جو اصلاحات کے خلاف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

تاہم تحریک طالبان کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی تجویز کے حوالے سے تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں کئی سوالات ہیں جن کے جواب ابھی تک نہیں ملے، مثلا یہ کہ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں کس طرح شامل کیا جائے گا، کیا وہ ہتھیار ڈالیں گے؟ کیا وہ سیاسی جماعت یا سول سوسائٹی کی تنظیم کے طور پر رجسٹر ہوگی؟ اگر بات چیت کامیابی پر ختم ہو جائے تو مخالفت کرنے والے طالبان گروہوں سے نمٹنے کے لیے ریاست کا کیا منصوبہ ہے؟
لہازا ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کو قومی دھارے میں شامل کرنے سے قبل ان تمام سوالوں کے واضح جواب حاصل کیے جائیں۔

Related Articles

Back to top button