جسٹس بندیال نے ساس کیلئے عدلیہ کی عزت کا جنازہ کیسے نکالا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنی ساس کی محبت میں اندھے ہو گئے، ساس کی آڈیو لیکس کیس میں داماد یعنی اپنی موجودگی پر حکومتی اعتراضات کو قرآنی احکامات کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔حالانکہ ماضی میں جب عمران خان کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ان کے متعلق کیسز کی سماعت کرنے پر اعتراض تھا تو جسٹس بندیال نے خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بینچ سے الگ کردیا تھا۔
آڈیو لیکس کمیشن پر چیف جسٹس عطاء بندیال نے اپنی ساسو ماں، پرویزالہیٰ، مظاہر نقوی، عابد زبیری سمیت تمام عمران زادوں کو این آر اودے دیا. سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن بارے کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے تین ججز پر حکومتی اعتراض کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی درخواست بینچ کو ہراساں کرنے کے لیے دائر کی گئی، اعتراض کا مقصد چیف جسٹس کو بینچ سے الگ کرنا تھا، یہ درخواست عدلیہ پر حملہ ہے۔عدالت عظمیٰ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے مختصر فیصلہ سنا دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔ متفرق درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس میں سپریم کورٹ نے 32صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔فیصلہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔چیف جسٹس بندیال نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ بینچ میں ان کی موجودگی پر وفاقی حکومت کا اعتراض جج کے بارے میں قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ ’غیر جانبداری سے انصاف کی فراہمی۔‘ یہ ایک ایسا اصول ہے جو ججز کے حلف میں بھی موجود ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ 3ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ بینچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے بینچ کے رکن کو ہراساں کرنے کے لیے دائر کی گئی۔فیصلے کے مطابق ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
’وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کیلئے درخواستیں دائر کیں، آڈیو لیکس کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کا ٹکراؤ اور تعصب جیسی بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی گئی‘۔فیصلے میں قرار دیا گیا کہ آڈیو لیکس کیس کے خلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا۔ وفاقی وزراء نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کے خلاف بیان بازی کی۔ وفاقی وزراء نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے خلاف کیس میں عوامی فورمز پر اشتعال انگیز بیانات دیے۔ وزرا کا اشتعال انگیز بیانات کا مقصد وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ان مقدمات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا۔ کسی عدالتی فیصلے پر حتمی عدالتی فیصلے کی پابندی لازم ہے، فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیے گئے ہیں۔فیصلے کے مطابق متفرق درخواست عدلیہ پر حملہ ہے،اس لیے متفرق درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ بینچ کے ججز پر اعتراض کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست مذموم مقاصد کیلئے دائر کی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کیس میں بینچ پر حکومتی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔سپریم کورٹ مبینہ آڈیو لیکس کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بینچ پر حکومتی اعتراض مسترد کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ججز پر اعتراض کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراض اٹھایا تھا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربنچ نے مبینہ آڈیو کیس پر سماعت کے بعد 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مبینہ آڈیو لیکس پر پی ڈی ایم حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی انکوائری کمیشن بنایا تھا۔ کمیشن میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم افغان بلوچ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق بھی شامل تھے.
انکوائری کمیشن نے ایک ہی سماعت کی تھی کہ صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن عابد زبیری کی جانب سے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل اور کارروائی چیلنج کی گئی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انکوائری کمیشن چیف جسٹس کی مشاورت سے بنایا جاتا ہے اور پی ڈی ایم حکومت نے کمیشن بناتے وقت چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 5رکنی لارجربنچ تشکیل دیا۔جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ تھے۔
وفاقی حکومت نے بینچ کے 3ججز چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس منیب اختر پر اعتراض اٹھایا تھا۔ حکومت کا موقف تھا کہ تینوں ججز کا کیس سننا مفادات کا ٹکراؤ ہے، اس لیے وہ مقدمے سے الگ ہوجائیں۔ 5 رکنی بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکومتی اعتراض مسترد قرار دیا۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز پر اعتراض عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔
واضح رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں اور دیگر ممتا ز شخصیات سے متعلق قومی میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آنے والی آڈیو ریکارڈنگز نے فی الحقیقت اعلیٰ عدلیہ کے اعتبار کو بری طرح مجروح کیا کیونکہ ان سے اہم مقدمات میں سودے بازی اور ساز باز کا تاثر ملتا ہے ۔صورت حال کو جس چیز نے مزید مشتبہ بنادیا وہ یہ ہے کہ متعلقہ شخصیات نے بالعموم ان کلپس کے جعلی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا بلکہ اظہار برہمی بس اس بات پر کیا گیا کہ نجی گفتگو ریکارڈ کرنا پرائیویسی کے حق کے منافی ہے۔ یہ آڈیو ریکارڈنگز سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی اور سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی،پرویز الٰہی اور وکیل ارشدجوجہ ،پرویز الٰہی اور عابد زبیری ایڈووکیٹ،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور طارق رحیم، فیصل چوہدری اور فواد چوہدری، جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب اور پی ٹی آئی کے ابوذر چدھڑ،عمران خان اور پی ٹی آئی رہنما مسرت چیمہ،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی ساس مہ جبین نون اور مسز رافعہ طارق، عبدالقیوم صدیقی اور خواجہ طارق رحیم کی مبینہ گفتگو پر مشتمل ہیں۔ ملک کی وکلاء برادری، سیاسی رہنماؤں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے پرزور مطالبہ کیا جاتا رہا کہ وہ ان آڈیوز کی فرانزک تحقیقات کرواکے اس بات کا تعین کریں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ اگر آڈیوز جعلی ہیں تو انہیں تیار کرنے اور منظر عام پر لانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر درست ہیں تو ساز باز میں شامل شخصیات کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔تاہم چیف جسٹس نے واضح طور پر تاثر دیا کہ وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت کو مشتبہ بنادینے والا یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ اس وقت کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ اور اسلام آباد و بلوچستان ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیشن بنانا ضروری سمجھا جس کا مقصد متعلقہ شخصیات میں سے کسی کیخلاف کارروائی نہیں بلکہ صرف حقائق کا پتہ لگانا اور نتائج قوم کے سامنے لانا تھا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی روشنی میں ہر شخص بآسانی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے حوالے سے چیف جسٹس کا موقف درست ہے یا اس وقت کی وفاقی حکومت کا۔۔۔
خیال رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے تحقیقاتی کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اس اقدام پر نہایت اہم آئینی و قانونی سوالات اٹھائے تھے۔ان کے مطابق انکوائری کمیشن کے قیام سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، کمیشن کو بغیر نوٹس معطل نہیں کیا جاسکتا،قواعد کی رو سے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کرنا غلط ہے،کمیشن کا دائرہ کارکسی کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ محض یہ پتہ لگانا تھا کہ آڈیوز اصلی ہیں بھی یا نہیں لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اس طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے حدود میں مداخلت ہوئی ہے ،محض آڈیوز کی بنیاد پر کسی جج کا معاملہ کونسل میں نہیں لے جایا جاسکتا بلکہ اس سے پہلے آڈیو کی تصدیق ضروری ہے اور کمیشن اسی لیے بنایا گیا ہے۔ کسی جج کو کسی مقدمے میں رقم کی پیشکش کا ثبوت سامنے لایا جانا پرائیویسی کے حق کے خلاف نہیں کیونکہ یہ حق نجی امور تک محدود ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے اس موقف کی معقولیت بالکل واضح ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے ممتاز تجزیہ کاروں نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ آڈیو لیکس کمیشن کو معطل کرکے چیف جسٹس نے خود کو مزید متنازع بنالیا ہے۔