جنرل باجوہ عمران کی کون سے خفیہ ویڈیوز سامنے لانے والے ہیں؟

سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے عمران خان کے آئے روز کی الزام ترشیوں سے تنگ آ کر فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس عمران کی ایسی ایسی ٹیپس موجود ہیں اگر وہ ان خفیہ ریکارڈنگز کو سامنے لے آئے تو عمران خان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔پاکستان میں آج کل سیاست دانوں کی آڈیو لیکس کا ایک خطرناک سلسلہ چل پڑا ہے اور اس میں خصوصاً ایک ایسے وقت میں مزید تیزی آگئی ہے جب پہلے ہی سیاست بہتان تراشیوں اور فحش گوئی کی زد میں ہے۔ ماضی قریب میں جہاں سابق وزیراعظم عمران خان کی چند خواتین کے ساتھ نہایت غلیظ گفتگو پر مبنی آڈیو لیکس نے ماحول کو مزید پراگندہ کیا وہیں اب جنرل باجوہ کے دعوے نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے۔
سینیئر اینکر آفتاب اقبال نے مطابق سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں خود بتایا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی وہ ویڈیوز بنا رکھی ہیں جن میں وہ نواز شریف کے خلاف کارروائیوں کے مشورے دیتے تھے اور کارروائیوں کے بعد تعریفیں کیا کرتے تھے اور مزید کارروائیوں کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔آفتاب اقبال کے مطابق جب انہوں نے جنرل باجوہ کو کہا کہ یہ ریکارڈنگز تو آپ کے خلاف جائیں گی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اب نہیں ڈرتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس وقت غصے کی آخری سٹیج پر پہنچے ہوئے تھے۔ جنرل باجوہ نے بتایا کہ وہ ریکارڈنگز انہوں نے خود بنائی ہوئی ہیں۔وہ شاید جنرل (ر) فیض حمید کو بچانے کی کوشش میں کہہ رہے تھے کہ ان باتوں کا فیض کو بھی نہیں پتہ۔ یہ ریکارڈنگز میں خود کرتا رہا ہوں۔
سینئر صحافی آفتاب اقبال کے مطابق انہوں نے جنرل باجوہ کو کہا کہ اس حساب سے تو نواز شریف کا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔وہ تو پہلے ہی یہ کہتے ہیں کہ چند ججز اور جرنیلوں نے مل کر نواز شریف کو پھنسایا، اس معصوم کا تو کوئی قصور ہی نہیں تھا۔ آفتاب اقبال کا مزید کہنا ہے کہ میں نے ساری باتیں عمران خان کو بتائیں تو انہوں نے صاف کہا کہ اسے کہو جو کرنا ہے کر لے، ابھی تو میں نے اس کے خلاف کچھ کیا ہی نہیں ہے۔تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ ویڈیوز اصلی ہیں یا نقلی لیکن ان کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات بہت بڑے ہیں۔
خیال رہے کہ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی میں ایجنسیز سیاستدانوں کو کنٹرول اور بلیک میل کرنے کے لئے ان اوچھے ہتھکنڈوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ تاہم جب کسی سیاستدان کے بارے میں ایسا کوئی غیر اخلاقی مواد لیک ہوتا ہے تو وہ اس غیر اخلاقی حرکت کو اجتماعی طور پر روکنے کی بجائے اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیز کے سیاسی کردار کے بارے میں مسلسل اور بے تحاشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ ادارے انہیں اچھے لگتے ہیں جب وہ انکے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو رہے ہوں لیکن جیسے ہی ان کی توپوں کا رخ ان کی طرف مڑتا ہے تو انہیں ان اداروں کی آئینی حدود کا خیال آنا شروع ہو جاتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اداروں کا کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا، ان کے قلیل مدتی مفادات ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے کوئی بھی ان کی زد میں آ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں سیاستدانوں کی نجی ویڈیوز اور آڈیوز کا ایک باقاعدہ اور منظم سلسلہ شروع ہوا۔ جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما زبیر عمر کی فحش ویڈیوز لیک کی گئیں تو تب تحریک انصاف کے رہنماؤں سے لے کر ان کے حمایتیوں تک سب نے انکا خوب ٹھٹہ اڑایا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اکثر مریم نواز کی آڈیو لیک کی پیشگی اطلاع دیا کرتے تھے کہ ایک اور آڈیو آ رہی ہے۔ حالانکہ وہ آڈیو لیکس سیاسی ہوتی تھیں لیکن عمران خان مریم نواز کی ہر آیڈیو لیک کا کریڈٹ لیا کرتے تھے۔ تب سب کچھ ون پیج پر تھا اور عمران سمیت پوری تحریک انصاف کو یہ زعم تھا کہ اداروں کی حمایت اور ان کا دست شفقت ان پر ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔ مگر مکافات عمل بھی ایک حقیقت ہے؟
لہٰذا آج ادارے بھی وہی ہیں، اور انکا طریقہ واردات بھی وہی ہے مگر اس کا نشانہ بننے والے ملک میں سستی تبدیلی کے سرخیل عمران خان ہیں۔ آج کل ان کی آڈیو لیکس کا دور چل رہا ہے۔ عمران خان کی عائلہ اور فریحہ کے ساتھ تازہ آڈیو لیکس نے تو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار کپتان کو بری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر دو مختلف خواتین کے ساتھ لیک ہونے والی غلیظ ترین ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیوز نے ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا۔ موصوف جس قسم کی گھٹیا گفتگو کرتے سنائی دیتے ہیں، وہ کوئی نارمل شخص نہیں بلکہ جنسی ہوس کا مارا ہوا کوئی ذہنی بیمار ہی کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی میں ذاتیات کو شامل کر لیا اور سینئر فوجی افسروں کو نام لے کر لعن طعن کرنا اور لتاڑنا شروع کر دیا۔انہوں نے جنرل باجوہ پر مسلسل الزامات لگا کر اور انہیں غدار اور جانور قرار دے کر خفیہ والوں کو اپنے خلاف انتقامی کارروائیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ جس پائے کے سیاسی لیڈر ہونے کا دعوی ٰکرتے ہیں اس پر پورا اترنے کے لیے ان کو چاہیے تھا کہ وہ نظریات اور قومی ایشوز کی سیاست کرتے نا کہ ذاتی حملوں پر اتر آتے۔ لیکن جب آپ اپنے مخالفین کو ریڈ لائن کراس کرتے ہوئے تذلیل کا نشانہ بنائیں گے تو پھر جوابی وار بھی ہو گا۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عمران خان کو اپنے خلاف آڈیو لیکس اور مزید تذلیل کا سلسلہ روکنے کے لئے اپنی زبان درازی کو ترک کرنا ہوگا۔