حکومتی وارننگ کے بعد فوجی ترجمان کی جوابی وارننگ


کپتان کی جانب سے نیوٹرل ہو جانے کا اعلان کرنے والی فوج کو اپنی حکومت بچانے کے لیے دوبارہ سیاست میں گھسیٹنے کی کھلی کوششوں کے بعد فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ یعنی ان کے کہنے کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم نیوٹرل ہو چکے ہیں اور ہم نیوٹرل ہی رہیں گے لہذا اب فوج سے سیاسی کردار ادا کرنے کی امید نہ رکھی جائے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل افتخار بابر نے کہا ک اس معاملے پر غیر ضروری گفتگو سے گریز کیا جائے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں فوج کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کوئی کیا کہہ رہا ہے ہمیں اس سے غرض نہیں۔ آپ وہ سنیں جو میں کہہ رہا ہوں۔ میں نے بار بار یہ کہا ہے کہ اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ہماری طرف سے کچھ ہو رہا ہے تو اس کا کوئی ثبوت لائے۔ جو لوگ ایسی بات کر رہے ہیں، ان سے اس بارے میں پوچھا جائے۔
یاد رہے کہ میجر جنرل افتخار بابر کی پریس کانفرنس سے کچھ گھنٹے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کے آئین کی اسکیم کے تحت فوج حکومت وقت کے ساتھ ہوتی ہے، اگر فوج حکومت کے ساتھ نہیں ہو گی تو یہ پاکستان کی آئینی اسکیم کے برعکس ہوگا، فوج نے اپنے آئین پر عمل کرنا ہے اور فوج آئین پر عمل کرے گی۔ یعنی وزیراعظم کے ایما پر فواد نے فوج کو یہ وارننگ دی کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ کر حکومت کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ یاد رہے کہ اس پریس کانفرنس کے دوران فواد چوہدری نے اپوزیشن کی جانب سے ماضی میں فوج پر لگائے الزامات کا سلائیڈ شو پیش کیا۔ یہ بھی پاکستانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ حکومت کے جانب سے مین سٹریم میڈیا پر لائیو نشر ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران “یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے” جیسے قابل اعترض نعرے بھی سنوائے گئے جنہیں ماضی میں میں حکومت غداری کے مترادف قرار دیتی رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد فوج پر دباؤ ڈالنا تھا اور یہ تاثر دینا تھا کہ عمران خان کو گرانے کی کوششوں میں مصروف اپوزیشن جماعتیں فوج مخالف ہیں لہذا کھل کر حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی سوچ فوج کو کنٹرول کرنا ہے، انہیں جب بھی حکومت ملی، انہوں نے فوج کے خلاف سازش کی۔
انہوں نے سابق صدر آصف زرداری کے دور حکومت میں ‘ایبٹ آباد آپریشن’ اور ‘میموگیٹ اسکینڈل’ میں مبینہ طور پر امریکی حکومت سے مدد طلب کرنے کی مبینہ کوشش کے حوالے سے بھی ایک وڈیو صحافیوں کو دکھائی۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ‘ڈان لیکس’ اسکینڈل سے متعلق وڈیو بھی نشر کی گئی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ نواز شریف نے فوج اور آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا تھا۔ فواد چوہدری نے اس دوران بھارتی حکومت سے تعلقات بڑھانے کی نواز شریف کی کوششوں سے متعلق سابق سفارت کار تسنیم اسلم کے انٹرویو کا ایک کلپ بھی چلایا، جس میں سابق سفارت کار نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف نے انہیں بھارت کے خلاف بیانات دینے سے روکا تھا۔
وفاقی وزیر نے مختلف مواقع پر مسلم (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے فوج سے متعلق دیے گئے بیانات پر مشتمل متعدد ریکارڈنگز کے کلپس بھی چلائے۔ انہیں میں سے ایک کلپ میں مریم نواز ایک جلسے سے خطاب کر رہی ہیں جہاں “یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے” جیسے قابل اعتراض نعرے بھی رپیٹ کر کے سنائے گئے۔
فواد چوہدری نے یہ تو نہیں بتایا کہ اچانک انہیں یہ باتیں کیوں یاد آگئی لیکن انہوں نے کہا کہ فوج پر قابو پانا اور اسے مسخر کرنا اپوزیشن رہنماوں کا دیرینہ خواب ہے، اپوزیشن فوج پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، اپوزیشن اپنے فائدے کی اصلاحات چاہتی ہے، انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے۔ تاہم ان کا یہ دعویٰ اس لیے کھوکھلا نظر آتا ہے کہ شاید پچھلے ساڑھے تین برس میں یہ پہلا موقع ہے کہ تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت فوج کے نیوٹرل ہو جانے کی تصدیق کرتے ہوئے اسکی تعریف کرتی نظر آتی ہے۔

Related Articles

Back to top button