حکومت عمران کی مذاکرات کی آفر کا نوٹس کیوں نہیں لے رہی؟

شہباز شریف حکومت کی جانب سے عمران خان کی مذاکرات کی پیش کش کا نوٹس نہ لینے کے بعد سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا حکومت واقعی چاہتی ہے کہ عمران دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں یا حکومت کو یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔عمران نے نئے انتخابات کے اپنے مطالبے پر حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی تاہم حکمران اتحاد نے اس پیش کش پر تاحال دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ رواں سال اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ عمران نے مخالف سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنے پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکرات کی پیش کش سے متعلق عمران خان کا بیان سامنے آنے کے باجود ہ حکومتی اتحاد اس پیش کش کا جواب دینے سے گریزاں کیوں ہے؟ سیاسی مبصرین اس سوال کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت واقعی چاہتی ہے کہ عمران اسمبلی توڑ دیں تاکہ وہ نئے انتخابات کروا کر اگلے پانچ برس کے لیے پنجاب کا قبضہ حاصل کر لے۔ لیکن دیگر تجزیہ کاروں کے خیال میں حکومت کو یقین ہے کہ عمران ایسا ہر گز نہیں کریں گے کیونکہ صوبائی اسمبلیاں توڑ کر وہ 65 فیصد پاکستان پر تحریک انصاف کا اقتدار ختم کرنے کا رسک نہیں لیں گے۔ حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ لے کر مسلسل احتجاج کی سیاست کررہے ہیں ۔ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے جلسوں، لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان سمیت سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف طریقےاختیار کرچکے ہیں اور یوں سیاسی فضا مسلسل بے یقینی سے دوچار ہے۔
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ حکومت نے عمران کی مذاکرات کی پیش کش کو اس قدر سنجیدہ نہیں لیا ہے جیسا کہ تحریک انصاف توقع کررہی تھے۔ عمران سمجھ رہے تھے کہ ان کی پیش کش کو حکومت فوری قبول کرلے گی اور قبل از وقت انتخابات ہوجائیں گے۔ لیکن ان کے بقول، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے نظر نہیں آتے۔ سلیم بخاری نے کہا کہ حکومت نے اگرچہ عمران کی مذاکرات کی پیش کش مسترد نہیں کی ہے لیکن ان کے خیال میں وہ چاہتے ہیں کہ یہ مذاکرات کسی پیشگی شرائط کے بغیر ہوں۔ ان کے بقول حکومت نے مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھا لیا ہے اور اب وہ سمجھتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ سے بھی دور چلا گیا ہے تو قبل از وقت انتخابات ان کے مفاد میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ عام انتخابات قبل از وقت کرائے جائیں تو ایسے میں یہ معاملہ کسی منطقی نتیجے کی طرف جاتا دکھائی نہیں دیتا۔
تجزیہ کار حماد غزنوی کے خیال میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں قبل از وقت انتخابات پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں اور حکومت اسی وقت عمران کی مذاکرات کی دعوت پر بات آگے بڑھائے گی جب سب اتحادی جماعتیں کسی ایک نکتے پر متفق ہو جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد انتخابات میں جانے سے کچھ خوف زدہ بھی ہے کیوں کہ عمران اس وقت عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور حکومت میں شامل جماعتوں کو لگتا ہے کہ ان کے لیے ایسے حالات میں انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات میں انتخابات کے علاوہ ’میثاقِ معیشت‘ اور ’میثاقَ جمہوریت‘ پر بھی بات چیت کی جائے جب کہ عمران خان صرف انتخابات پر بات چیت چاہتے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر بات چیت شروع ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔
عمران کی انتخابات کے لیے مذاکرات کی پیش کش پر وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے ٹوئٹ کیا تھاکہ وہ عمران خان کے مطالبے پر انتخابات کی تاریخ دے رہی ہیں جو کہ اکتوبر 2023 میں ہوں گے۔ ایسے میں سوال کیا جارہا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے جھنڈی کروائے جانے کے بعد عمران اسمبلیوں کی تحلیل کا انتہائی اقدام کریں گے؟ تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران نے لانگ مارچ سے جو توقعات رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں اور اس وجہ سے انہوں نے اسمبلیوں سے استعفے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور پرویز الٰہی نے بھی عمران کے سامنے اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی کچھ وجوہ رکھی ہیں۔ سلیم بخاری نے کہا کہ اب ایسے بیانات سامنے آچکے ہیں کہ پی ٹی آئی مارچ تک اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو فوری الیکشن بھی ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔