سندھ میں پر تشدد لسانی فسادات کیوں پھوٹ پڑے؟

حیدرآباد میں ایک پشتون کے ہوٹل پر سندھی قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے بلال کاکا نامی شخص کے قتل کے بعد سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے ہیں جن کے دوران کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور صورتحال سخت کشیدہ ہے۔ اس قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا دائرہ بلوچستان تک پھیل گیا ہے۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے کو لسانی رنگ دینے کی مذمت کرتے ہوئے شہریوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کی ہے لیکن صورتحال بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
حیدرآباد میں شروع ہونے والے مظاہرے نہ صرف سندھ کے کئی اضلاع میں پھیل رہے ہیں بلکہ بلوچستان میں بھی پشتونوں کی حمایت میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے واقعے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے پولیس کو حالات قابو میں رکھنے کے ہدایت جاری کی ہے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل حیدرآباد میں ایک پشتون ہوٹل مالک نے سندھی قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے بلال کاکا کو بل کی ادائیگی کے تنازعہ پر لوہے کے سریے سے قتل کر دیا تھا۔ پولیس نے واقعے میں ملوث شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔ تاہم اس واقعے کے بعد سے سندھی قوم پرستوں نے کئی بڑے شہروں میں پٹھانوں کے ہوٹل اور کاروبار بند کروا دیے ہیں۔
اس سے پہلے سندھ پولیس نے بلال کاکا کے حوالے سے بتایا تھا کہ مقتول متعدد مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھا تاہم ان کے بھائی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ بلال کاکا کے بھائی نے کہا کہ ’پولیس بلال کے پرانے کیسز کا ریکارڈ پیش کرکے کیس کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ویسے بھی کسی بھی انسان کو جانوروں کی طرح قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس نے کہا کہ اگر واقعے میں ملوث افراد کے خلاف موثر کارروائی نہ ہوئی تو احتجاج کا دائرہ کار وسیع کریں گے۔ بلال کاکا کی ہلاکت پر ابتدائی طور پر حیدرآباد سول ہسپتال کے باہر احتجاج کیا گیا تھا تاہم اب سندھ کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ مظاہرین نے جمعے کی صبح سندھ پنجاب ہائی وے کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور مین ہائی وے بند کردی جس کی وجہ سے سندھ کے مختلف شہروں سے پنجاب اور دیگر صوبوں میں جانے والے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت جاری کی ہے کہ ’صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک انفرادی واقعے کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ سندھ دھرتی امن و محبت کی دھرتی ہے۔‘
صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شاہی سید اور قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو سے رابطہ کر کے انہیں امن اور بھائی چارے کے قیام میں مثبت کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
دوسری جانب قوم پرست جماعتوں اور سندھ کی نامور مذہبی شخصیات نے بھی مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ ’حیدرآباد میں پیش آنے والا واقعہ افسوسناک ہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں اپنا کرادار ادا کرے۔‘ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ قادر مگسی نے کہا کہ ’ہم امن پسند لوگ ہیں اور امن و سکون سے رہنا چاہتے ہیں۔ سندھ میں روزگار کے لیے آنے والے ہمارے بھائی ہیں۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے بھی واقعے کے حوالے سے ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے سندھ میں پشتونوں کے کاروباری مراکز پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سندھی اور پشتون قوم کا آپس میں لڑنا دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ دونوں کے دشمن کو اس سے فائدہ ہوگا، حیدر آباد میں بلال کاکا کی ہلاکت کا معاملہ عدالت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔‘
حُر جماعت کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ نے پیر جو گوٹھ میں کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پرامن رہیں۔ لیکن دوسری جانب کراچی میں پشتون آبادی کے اکثریتی علاقے سہراب گوٹھ میں موٹر وے جانے والی سڑک اور بس اڈے پر مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ اور ہوائی فائرنگ کی جس سے صورت حال اور بھی کشیدہ ہو گئی۔
بتایا گیا ہے کہ قتل کا واقعہ حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں 12 جولائی کی شب یہ واقعہ پیش آیا جب ہوٹل پر کھانا کھانے کے دوران نوجوانوں اور ہوٹل انتظامیہ میں تصادم ہو گیا۔ بلال کاکا کے بھائی سلام کاکا نے بھٹائی نگر تھانے میں دائر مقدمے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ رات کو سوا تین بجے ان کے دوست عامر خان نے فون پر اطلاع دی کہ آپ کے بھائی بلال کاکا کو سلاطین ہوٹل والوں نے جھگڑا کر کے ہلاک اور دوستوں کو زخمی کر دیا ہے اور وہ لاش اور زخمیوں کو رکشہ میں لے کر سول ہسپتال جا رہے ہیں۔ سلام کاکا کے مطابق وہ فوری سول ہسپتال پہنچے جہاں دیکھا کہ ’بلال کی لاش سٹریچر پر موجود ہے۔ دائیں جانب کان سے اوپر چوٹ لگی ہوئی تھی جس سے خون نکل رہا تھا اس کے علاوہ پیٹھ اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی چوٹوں کے نشانات واضح تھے۔‘
بلال کاکا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق 35 سالہ بلال کی موت اندرونی اعضا کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کے جسم کے اہم اعضا کو کسی تیز دار چیز سے نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔ بلال کاکا کا تعلق حیدرآباد کے قریب نیشنل ہائی وے پر واقع نیو سعید آباد سے تھا۔ انھوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور حیدرآباد میں ایک نجی تعلیمی ادارے میں سکیورٹی سپروائیزر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ تین سال قبل ان کی شادی ہوئی تھی اور ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ بلال قوم پرست سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ ان کا تعلق سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ سے تھا۔ جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما نیاز کالانی کی قیادت میں بلال کاکا کی لاش سمیت قاسم آباد میں دھرنا دیا گیا، ان کا مطالبہ تھا کہ تمام مقدے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں اور تمام ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
قوم پرست جماعتوں نے ہوٹل مالکان کو افغانی قرار دیا جس کے بعد سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ حیدرآباد، شکارپور، سکھر، نوابشاہ، سہون، ٹنڈو محمد خان، میھڑ سمیت ایک درجن کے قریب شہروں اور قصبوں میں قوم پرست جماعتوں جئے سندھ قومی محاذ، جئے سندھ محاذ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ افغان باشندوں کو سندھ سے بے دخل کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر بعض ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سہون، نوابشاہ، قاسم آباد، حیدرآباد اور ٹنڈو محمد خان میں نوجوان پشتون دکانداروں کی دکانیں بند کرا رہے ہیں۔ جام شورو اور کوٹڑی میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب ہوٹلوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور فائرنگ میں قوم پرست جماعتوں کے پانچ کارکن زخمی ہوئے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر بھی بلال کاکا کے قتل اور افغان تارکین وطن کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ تاہم صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے دوستی اور بھائی چارے کے پیغام شیئر کیے جبکہ کچھ لوگوں نے جی ایم سید اور باچا خان کی مشترکہ تصاویر شیئر کیں۔