سپیکر اسد قیصر نے عمران سے دوری کیوں اختیار کی؟


سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں کپتان کے چماٹ خاص کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے تاریخ کے متنازعہ ترین سپیکر قومی اسمبلی قرار دئیے جانے والے اسد قیصر نے بھی تحریک انصاف کے کئی دیگر رہنماؤں کی طرح خان صاحب سے دوری اختیار کر لی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کپتان اور سابق سپیکر کے مابین دوریوں کی بنیادی وجہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن اسد قیصر کی کانپیں ٹانگنا بنی جسکی تصدیق خود سابق وزیراعظم نے بھی کر دی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے سینئر صحافی جاوید چوہدری کو ایک ملاقات میں بتایا کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد والے دن اسد قیصر کی ٹانگیں نہ کانپتیں تو وہ آج بھی وزیراعظم ہوتے۔

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے جاری حکومت مخالف مہم اور جلسے، جلسوں کے دوران ان کے کئی اہم ساتھی اب انکے ساتھ نظر نہیں آتے اور ان کے سیاسی قرب سے دور ہوچکے ہیں۔ ان میں قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر کا نام بطور خاص لیا جارہا ہے جن کی عمران سے وابستگی اب برائے نام رہ گئی یے۔ گو کہ اسد قیصر کے قریبی ذرائع اس تائثر کی تردید کرتے ہیں کہ وہ پس منظر میں جاچکے ہیں اور ان کا عمران خان سے رابطہ ختم ہوچکا ہے لیکن دوسری طرف کئی ’’واقعاتی شواہد‘‘ اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ خود عمران نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں بعض اعترافات اور انکشافات کئے ہیں جن میں انہوں نے جہاں اپنی حکومت ختم کئے جانے کی ذمہ داری امریکی سازش پر ڈالی ہے وہیں انہوں نے اسد قیصر کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ جاوید چوہدری کے ساتھ انٹرویو میں عمران خان نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر 9 اپریل کی شب کیا ہوا تھا۔ عمران کا کہنا تھا کہ اس رات چپیڑیں مارنے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا جس کے بارے میں قیاس آرائیاں اور افواہیں پھیلائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس رات نہ تو کوئی ہیلی کاپٹر وزیراعظم ہاؤس میں اترا تھا اور نہ ہی ان پر آرمی کی جانب سے کوئی دبائو ڈالا گیا تھا، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں ادھر ادھر سے ٹیلی فون تسلسل کے ساتھ آرہے تھے۔

عمران خان نے بتایا کہ امریکی مراسلے کو ڈی کلاسیفائی کرنے کیلئے میں نے کابینہ کا اجلاس بلایا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اگر ہماری حکومت ختم ہوگئی تو پھر اسے ڈی کلاسیفائیڈ نہیں کیا جاسکے گا۔ عمران خان نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا، کہ ہوسکتا ہے کہ یہ انفارمیشن لیک کرنے کی پاداش میں میرے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع ہوجائے تاہم میں نے کابینہ سے منظوری لے لی، اس وقت تک معاملات ہماری دسترس میں تھے۔ میں نے کابینہ کے اجلاس کے بعد کچھ اینکرز سے ملاقات کی اور وہاں سے پرائم منسٹر ہائوس چلا گیا جہاں میں نے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر سے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا حکم ہے تو آپ آج کارروائی شروع کریں اور انہیں ہدایت کی ہم نے چار دن تک قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی ہر صورت چلانی ہے اگر اس کے بعد بھی ووٹنگ ہوتی ہے تو پھر دیکھا جائے گا۔ جاوید چوہدری کے مطابق عمران نے بتایا کہ میں نے دیکھا اسد قیصر کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ تب لفظ انکا ساتھ نہیں دے رہے تھے کیونکہ وہ صرف ایک فون کال پر ڈھیر ہوچکے تھے۔ چنانچہ اسد قیصر مجھے شکست خوردہ لہجے میں کہنے لگے، ’’عدالتیں کھل گئی ہیں اور جیل کی گاڑیاں اور ایمبولینس بھی آ گئی ہے اور میں ہمیشہ کیلئے ڈس کوالفائی ہوجائوں گا‘‘۔
عمران کا کہنا تھا کہ میں نے اسد قیصر کو حوصلہ دیا کہ تم ڈٹ جائو، ایسا کچھ نہیں ہوگا لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ عمران خان نے جاوید چوہدری کو کہا کہ مجھے یقین تھا کہ اگر اس رات اسد قیصر کی ٹانگیں نہ کانپتیں تو صورتحال مختلف ہوجاتی، عمران کے مطابق، اسد قیصر کے علاوہ بھی ہمارے کئی ساتھی ٹیلی فون کالز آنے کے بعد حواس باختہ ہوچکے تھے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسد قیصر کا سیاسی پس منظر کوئی زیادہ طویل نہیں ہے۔ تحریک انصاف ان کی دوسری سیاسی جماعت ہے جس میں وہ قومی سطح کی سیاست میں منظرعام پر آئے۔ اس سے قبل وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے اور انہوں نے سیاست کا آغاز بھی جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا تھا۔ ان کی ابتدائی تنظیمی ذمہ داری ناظم اسلامی جمعیت طلبہ کینتھی۔ پھر وہ جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ پاسابان کے ڈویژنل صدر بن گئے تھے۔ تحریک انصاف میں انہوں نے 1996میں شمولیت اختیار کی اور پھر مختلف تنظیمی عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 2013 میں پہلی مرتبہ اپنے حلقہ نیابت صوابی سے قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ لیکن ان کا ہدف اسمبلی کا سپیکر بننا تھا اس لئے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر قومی اسمبلی کے سپیکر کا ہدف اپنے مقابل سید خورشید شاہ کو شکست دیکر حاصل کرلیا۔ لیکن انہیں پاکستانی سیاسی تاریخ کا متنازع ترین سپیکر قومی اسمبلی قرار دیا جاتا ہے۔

Related Articles

Back to top button