شہباز شریف نے نواز شریف کو باندھ کر کیسے مروایا؟


پنجاب کے ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی شکست پر معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ نواز شریف کسی صورت شہباز کو وزیراعظم اور حمزہ کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس کا مطلب ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے پیچھے ہٹنا تھا، لیکن انکی جماعت اور بھائی نے انھیں باندھ کر مروا دیا، شہباز شریف نے اقتدار کی ڈیل کی اور ملک احمد خان اور عطاء اللہ تارڑ نے اسے حتمی شکل دی جسکے بعد نواز شریف کی پارٹی اقتدار کی پارٹی بن گئی اور پھر ضمنی الیکشن میں اسکا دھڑن تختہ ہو گیا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دنیا میں جیتنے کی دو ہزار وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ہارنے کی صرف ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ ہے ہار۔ اس لیے ضمنی الیکشنز میں مسلم لیگ ن ہار گئی۔ عمران خان جیت گئے لہٰذا اب نواز شریف سعت ان کی پارٹی کو ہار مان کر عمران کو مبارک باد پیش کرنی چاہیے۔ پنجاب اسمبلی میں اب صورت حال یہ ہے تحریک انصاف کی 178 سیٹیں ہیں، ق لیگ کی 10 سیٹیں جبکہ مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی 179 نشستیں لہٰذا صاف نظر آ رہا ہے تحریک انصاف اب پرویز الٰہی کی زیر قیادت حکومت بنائے گی۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی شکست کی پہلی وجہ تیاری کے بغیر اقتدار کے سمندر میں چھلانگ لگانا بنی۔ نواز شریف کا خیال تھا کہ عوام عمران خان کو کرسی سے گھسیٹ کر اتار دیں گے لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی جب یہ مرحلہ نہ آیا تو نون لیگی قیادت پریشان ہو گئی اور ’’ٹریپ‘‘ میں آ گئی۔ شریف برادران کو بتایا گیا تھا کہ عمران سو سے زائد ریٹائرڈ جج بھرتی کر رہے ہیں جو دسمبر 2022 تک اپوزیشن کی ساری قیادت کو جیلوں میں پھینک دیں گے اور ڈس کوالی فائی بھی کر دیں گے، چنانچہ آپکے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے مارچ 2021ء میں حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا‘ 3 مارچ کو الیکشن ہوا‘ حفیظ شیخ ہار گئے اور گیلانی جیت گئے‘ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان اپنی شکست کو سیریس لیں گے اور اپنے سیاسی معاملات درست کر لیں گے لیکن وزیراعظم نے 6 مارچ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر کے اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر دیا۔ وزیر اعظم کو 178 ووٹ دلانے کے لیے ایم این ایز کو سیف ہاؤسز میں بھی رکھا گیا‘ پارلیمنٹ لاجز میں ارکان اسمبلی کے دروازوں کے سامنے سکیورٹی بھی بٹھائی گئی اور اتحادیوں کو منا کر راضی کر کے اسلام آباد بھی لایا گیا اور یوں بڑی مشکل سے 178 ایم این اے پورے ہوئے۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے بعد ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کہا گیا سر یہ ہماری طرف سے آپ کی آخری سیاسی مدد تھی‘ آپ اب اپنے فیصلے خود کریں اور یوں اسٹیبلشمنٹ سائیڈ پر ہو گئی۔ آصف زرداری نے یہ دوری بھانپ لی اور انھوں نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو عدم اعتماد کے لیے راضی کر لیا اور یوں اتحادی حکومت بن گئی لیکن ساتھ ہی ن لیگ سے تین بڑی غلطیاں سرزد ہو گئیں اور یہ غلطیاں اسے دو ماہ میں وہاں لے آئیں جہاں اسے آنے میں پانچ سات برس چاہیے تھے‘ ن لیگ کی پہلی غلطی مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانا تھا‘ مفتاح اسماعیل ایک غیرسنجیدہ شخص ہیں۔

یہ بڑے بڑے ظالمانہ فیصلے ہنستے ہنستے کر جاتے ہیں اور یہ حرکت وزیر خزانہ کی شایان شان نہیں ہوتی‘ یہ 30اپریل 2021 کو فیصل واوڈا کی خالی سیٹ سے بھی ہار گئے تھے اور یہ اس وقت حلوہ قسم کی سیٹ تھی لیکن مفتاح اسماعیل نے ارب پتی ہونے کے باوجود اپنے الیکشن پر ایک کروڑ روپے بھی خرچ نہیں کیے تھے‘ یہ بینر اور پوسٹر تک دوسرے لوگوں کے پیسوں سے بنواتے اور لگواتے رہے۔ جاوید چودھری کے بقول مفتاح اسماعیل اس سے پہلے 2018 میں ایک ماہ چار دن کے لیے وزیر خزانہ بنائے گئے تھے اور انھوں نے اس زمانے میں بھی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا تھا‘ پاکستان ایف اے ٹی ایف میں بھی پھنس گیا تھا‘ آئی ایم ایف کے شکنجے میں بھی آ گیا تھا اور ڈالر بھی 10روپے مہنگا ہو گیا تھا۔ لہٰذا یہ ایک ’’بیڈ چوائس‘‘ ثابت ہوئے اگر ان کی جگہ یہ قلم دان اسحاق ڈار کو دے دیا جاتا تو آج ملک کی صورت حال مختلف ہوتی۔

نواز لیگ کی دوسری غلطی پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانا تھا‘ یہ درست ہے کہ حمزہ حلقوں کی سیاست سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود والد کا وزیر اعظم اور بیٹے کا 12 کروڑ کے صوبے کا وزیراعلیٰ ہونا لوگوں کو ہضم نہیں ہوا‘ پارٹی کے اندر سے بھی ٹھیک ٹھاک مخالفت سامنے آئی۔ نواز شریف بھی یہ نہیں چاہتے تھے لیکن رانا ثناء اللہ نے انھیں راضی کر لیا اور یہ فیصلہ بعدازاں غلط ثابت ہوا۔ جاوید کے بقول تیسری غلطی عمران کے بارے میں غلط اندازہ تھا‘ اتحادی حکومت کا خیال تھا عمران کی واحد طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے اور یہ اس کے پیچھے سے ہٹ چکی ہے چنانچہ یہ اب کاغذی ہو چکے ہیں مگر یہ اندازہ غلط ثابت ہوا‘ عمران خان نے اپنی لائن اینڈ لینتھ تبدیل کر دی اور یہ اب بڑی تیزی سے اپنی جگہ بناتے چلے جا رہے ہیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اتحادی جماعتوں بالخصوص ن لیگ کو اقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا‘ عمران نے جنرل باجوہ کے ذریعے اپوزیشن کو 7 اپریل کو عدم اعتماد واپس لینے اور بدلے میں قومی اسمبلی توڑنے کی پیش کش کی تھی‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اسلام آباد میں اپوزیشن کو ساڑھے پانچ گھنٹے سمجھایا تھا لیکن خالد مگسی‘ شاہ زین بگٹی اور ایم کیو ایم نہیں مانی تھی۔ خالد مگسی نے جواب دیا تھا‘ کہ میں بلوچستان کا بڑا زمین دار ہوں‘ لاکھوں ایکڑ کا مالک ہوں لیکن عمران نے مجھے کبھی عزت نہیں دی لہٰذا میں اس کی کوئی شرط نہیں مانوں گا۔ شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا عمران میرا نام تک نہیں جانتے‘ جب کہ ایم کیو ایم کا کہنا تھا ہمیں کراچی میں اپنا مینڈیٹ واپس لینے کے لیے وقت چاہیے اور یوں نون لیگ حکومت بنانے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن اگر ن لیگ حکومت بناتے وقت بھی عقل سے کام لے لیتی اور اگر شہباز شریف کی جگہ احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی یا خواجہ آصف کو وزیراعظم بنا دیتی تو شاید پارٹی کی عزت بچ جاتی لیکن پارٹی نے اپنے پوسٹر بوائے شہباز شریف کو میدان میں اتار کر خود کو سیاسی لحاظ سے برہنہ کر لیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ شہباز شریف صوبے کی حد تک تو ٹھیک تھے مگر ملک چلانا ان کے بس کی بات نہیں، اوپر سے پنجاب حمزہ شہباز شریف کے حوالے کر دیا گیا اور یوں اس تاثر پر مہر لگ گئی شریف فیملی ساری فصل اپنے گھر تک رکھنا چاہتی ہے۔

تاہم جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ میں نواز شریف کو ایک کریڈٹ دوں گا‘ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم، حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن انکے بھائی اور انکی پارٹی نے انھیں باندھ کر مروا دیا، شہباز شریف نے ڈیل کی اور ملک احمد خان اور عطاء اللہ تارڑ نے اس ڈیل کو حتمی شکل دی اور یوں آج پارٹی ‘پارٹی نہ رہی۔

جاوید چوہدری کہنا ہے کہ اب مستقبل کا منظرنامہ یوں بنتا ہے کہ فریش مینڈیٹ لینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا‘ یہ حکومت جتنی دیر چلتی رہے گی ملک اتنا ہی سیاسی‘ سفارتی اور معاشی گرداب میں پھنستا چلا جائے گا اور اسے اس گرداب سے نکالنے کے لیے جلد یا بدیر مارشل لاء لگانا پڑ جائے گا یا پھر ’’جوڈیشل کو‘‘ کرنا پڑے گا بصورت دیگر یہ سنبھل نہیں سکے گا اور اگر ایک بار مارشل لاء لگ گیا تو پھر یہ دس بیس سال ختم نہیں ہو گا اور اس وقت تک تینوں پارٹیوں کی قیادت زمین سے آسمان پر شفٹ ہو چکی ہو گی‘ 25 مئی کو لانگ مارچ کے دوران بھی پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کے وفد کو بلا کر یہ سمجھایا گیا تھا۔

انھیں بتایاگیا تھا اگر آج ریڈ زون میں لوگ مرے تو مارشل لاء لگ جائے گا اور آپ بیس سال تک کے لیے سیاسی واپسی کا آپشن بھی بھول جائیں‘ ملک کے حالات آج بھی اتنے ہی خطرناک ہیں‘ سیاسی جماعتیں اگر اکٹھی نہ بیٹھیں‘ یہ اگر کسی متفقہ لائحہ عمل پر نہ آئیں تو پھر مارشل لاء کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہ جائے گا اور ہم بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہے ہیں۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے واقعی خود کو سیاست سے دور کر لیا ہے ‘ فیصلے اب گھوڑے کر رہے ہیں اور میدان کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ فیصلہ کب تک برقرار رہ سکے گا‘ ملک اور معیشت اگر دونوں نہیں سنبھلتیں‘ سیاست دان کسی کم سے کم ایجنڈے پر متفق نہیں ہوتے تو اسٹیبلشمنٹ خود کو کتنی دیر اس گند سے باہر رکھ سکے گی۔ اسے جلد یا بدیر میدان میں کودنا پڑے گا اور اس فیصلے کے بھی اپنے برے نتائج ہوں گے اور یہ نتائج بہرحال ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو بھگتنا پڑیں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ اس کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہاں تو بسم اللہ اور پھر 20 سال کے لیے سیاست بھول جائیں لیکن اگر نہیں تو پھر نواز شریف کو آگے بڑھ کر عمران خان کو مبارک باد پیش کرنی چاہیے اور انھیں الیکٹورل ریفارمز‘ آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار اور اگلے الیکشن کے لیے اکٹھے بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے اور عمران خان کو یہ دعوت قبول کر لینی چاہیے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جمہوریت کے لیے آخری موقع ہے‘ ہم نے اگر یہ بھی کھو دیا تو پھر ہمیں واپسی کے لیے لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔

Related Articles

Back to top button