کشمیر سسک رہا ہے اور کپتان بانسری بجا رہا ہے


یاس، نااُمیدی، نامرادی، ناکامی، ظلم وجبر، زباں بندی، جبری خاموشی، معاشی تنگدستی، تعلیمی تعطل، تجارتی جمود، سیاسی بے اختیاری، آئینی پامالی، حقوق کی نیلامی۔ اگر بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر کے گزشتہ ایک سال کے سفر کو مختصراً بیان کرنا ہو تو یہ الفاظ کافی ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کے معاملے پر حکومت پاکستان کی پچھلے ایک برس کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کم ازکم نقشے کی حد تک تو پاکستان نے کشمیر کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ مختصر الفاظ میں کشمیر سسک رہا ہے اور حکومت پاکستان عملی طور پر کچھ کرنے کی بجایے نقشہ نقشہ کھیل رہی ہے۔
دائیں بازو کی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی یعنی بی جے پی کے 2014ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہی کشمیری عوام میں یہ وسوسے تقویت پانے لگے تھے کہ مودی سرکار وہاں کی بچی کھچی نام نہاد اندرونی خود مختاری کا جنازہ نکال کر رہے گی کیونکہ بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ یعنی آر ایس ایس کا 1947ء سے ہی یہ نعرہ تھا کہ ایک ملک میں 2 آئین اور 2 پرچم نہیں رہ سکتے۔
نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے جموں کشمیر پر مکمل قبضے اور پاکستان کی مخالفت کا ایجنڈے پر انتخابی مہم چلائی اور ماحول کو کچھ ایسا بنادیا کہ بھارت کی ہندو اکثریتی آبادی کو مودی اور اس کی جماعت بی جے پی نجات دہندہ نظر آنے لگی۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کے ذریعے بی جے پی کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا اور 3 سال تک سول سیکریٹریٹ میں سرکاری فائلوں کی چھان پھٹک کرنے کے بعد جب بی جے پی کو لگا کہ خوابوں میں رنگ بھرنے کا وقت آچکا ہے اور پی ڈی پی اس میں رکاوٹ بن رہی ہے تو اس کی حمایت سے دستبردار ہو کر مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی کو عین اس وقت اقتدار سے الگ کردیا گیا جب وہ بحیثیت وزیراعلیٰ سرکاری میٹنگ میں تھیں۔ پھر کشمیر کی خودمختاری غصب کرنے کے مشن پر گورنر سے مل کر کام شروع ہوا جس کا ڈراپ سین 5 اگست 2019ء تھا۔
خصوصی حیثیت کو بھارتی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا۔ جموں وکشمیر کے اقامتی قوانین پر بحث شروع ہوئی اور ایک بیانیہ تیار کیا گیا جس میں بادی النظر میں ہر مرض کی دوا جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ ہی نظر آرہی تھی۔ اگست 2019ء کے آتے آتے افواہ گرم تھی کہ دہلی میں مودی حکومت جموں وکشمیر کے پشتینی باشندگی قوانین کو تحفظ فراہم کرنے والے آئین ہند کی دفعہ 35 ‘اے’ کو ختم کرنے والی ہے۔ آناً فاناً ہندو امر ناتھ یاترا اس بہانے بیچ میں ہی ختم کردی گئی کہ اس پر حملہ ہونے والا ہے۔ سیاحوں اور کشمیر میں کام کررہے باہری مزدوروں کے لیے ایڈوائزری جاری کردی گئی کہ وہ فوراً کشمیر چھوڑ دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کے سیاحتی مقامات پر ویرانی چھاگئی۔ ہوٹل خالی ہوگئی۔ جھیل ڈل کے خاموش پانیوں پر ٹھہرے ہاؤس بوٹ اداسیوں کی علامت بن گئے۔ راشن ذخیرہ کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ مختصراً ایک ایسا ماحول بنایا گیا جہاں لوگوں کو یہ لگنے لگا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
اسی تذبذب کے عالم میں جب 4 اگست 2019 کی رات کو لوگ اپنی خواب گاہوں کا رخ کرنے لگے تو بے چین کردینے والی خبریں سامنے آنے لگیں۔ پھر 5 اگست کی صبح ایک بھیانک منظر کشی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ پورا کشمیر محصور ہوچکا تھا۔ راتوں رات کرفیو لگ چکا تھا۔ جوں جوں سورج کی تمازت بڑھنے لگی، کشمیر سے سینکڑوں کلو میٹر دُور دہلی کے پارلیمنٹ ہاؤس میں کشمیریوں کے لیے ایک نئے سیاہ باب کو رقم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ سورج جب عین شباب پر بالکل سروں کے اوپر تھا تو یہ اپنے ساتھ ایک قیامت بھی لے آیا جو پارلیمنٹ کی وہ ہنگامی قانون سازی تھی جو ساری پارلیمانی روایات کو بالائے طاق رکھ کر انجام دی جارہی تھی۔
1947ء سے بھارت کے آئین میں شامل دفعہ 370 کا جنازہ نکالا گیا اور اس کے ذریعے دفعہ 35 ‘اے’ بھی چلی گئی کیونکہ ایسے کئی قوانین دفعہ 370 کے راستے ہی کشمیر میں نافذ ہوئے تھے۔ دفعہ 370 گیا تو کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی گئی۔ اسی پر اکتفا نہ کیا گیا بلکہ بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی ریاست کو ڈاؤن گریڈ کرکے مرکز کے زیرِ انتظام دے دیا گیا۔
جموں وکشمیر دو لخت کیا گیا اور اس کے بطن سے لداخ کی صورت میں ایک اور مرکزی زیرِ انتظام علاقے کو جنم دیا گیا۔یہاں سے تاریکیوں کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سقوطِ جموں کشمیر کا ایک سال ہوچکا لیکن اس ایک سال میں کشمیریوں کے ہاتھ ناکامیوں، مایوسیوں اور نامرادیوں کے سوا کچھ نہیں لگا۔ 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت پر شب خون مارتے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ محرومیوں کی طویل سیاہ رات ختم ہوگئی اور اب ایک خوشگوار صبح کشمیریوں کی منتظر ہے۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اب کشمیر میں پیسوں کی ریل پیل ہوگی، تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہوگا، غربت بھولی بسری کہانی ہوگی، بے روزگاری ایک بُرے سپنے کی طرح ختم ہوجائے گی، محروم طبقوں کو انصاف ملے گا، عسکریت ختم ہوگی اور آزادی پسند جذبہ منوں من مٹی تلے دفن ہوجائے گا۔ سرجیکل اسٹرائیک کے بعد 5 اگست 2019 کے اقدام کو آئینی اسٹرائیک قرار دینے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تاریخی غلطیوں کو سدھارا گیا ہے اور کشمیر کو بھارت کے مین اسٹریم میں ضم کردیا گیا، لیکن ایک سال پورا ہونے کے بعد کچھ نہیں بدلا ہے۔سینہ ٹھونک کر جس عسکریت کو ختم کرنے کی باتیں کی گئی تھیں، وہ عسکریت تاحال زندہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کشمیری نوجوان بیابانوں کی راہ لیتے ہیں۔ آزادی کا جذبہ بھلے ہی لاٹھی کے زور پر دب چکا ہو لیکن ختم نہ ہوسکا۔
اس ایک سال میں اگر کچھ ختم ہوا تو وہ ہند نواز سیاست ہے کیونکہ ان کو اس قدر بے نیل مرام کردیا گیا کہ وہ اب اپنے لوگوں کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رکھے گئے ہیں۔5 اگست 2019ء کے بعد سے کشمیر عملی طور ایک پولیس اسٹیٹ بن چکی ہے۔خود حکومت مانتی ہے کہ 5 اگست کے بعد کچھ 15 ہزار سے زیادہ لوگوں کو زینت زنداں بنایا گیا۔ جو رہا ہوئے ان سے ضمانتی بانڈ لیا گیا کہ وہ بات نہیں کریں گے بلکہ اندھوں، بہروں اور گونگوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔یاسین ملک سے لے کر شبیر شاہ سمیت بیسیوں آزادی نواز لیڈران کو این آئی اے کے ذریعے جیل پہنچایا گیا۔دوسرا تیر ان لوگوں پر چلایا گیا جو خود کے پالے ہوئے تھے۔ جن ہند نواز سیاستدانوں کو دہلی نے 70 برسوں سے پالا پوسا تھا، انہیں بھی این آئی اے کے خوف سے ڈرایا گیا۔ غیر اعلانیہ سنسرشپ کی یہ انتہا ہے کہ مقامی میڈیا تو جیسے حکومت کا اشتہاری پوسٹر بن گیا اور اخبارات میں وہی کچھ شائع ہورہا تھا، جو سرکار چاہتی تھی۔ یکایک اداریے غائب ہوگئے اور ادارتی صفحات کا کہیں دُور تک نام و نشان نہیں رہا۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مطابق اس ایک سالہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت کو 40 ہزار کروڑ روپے نقصان ہوا ہے جبکہ اس عرصے کے دوران نجی سیکٹر میں 3 لاکھ کے قریب لوگ روزگار سے محروم ہوگئے۔ان مخدوش حالات سے اگر کوئی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تو وہ تعلیم ہی ہے۔ یہی حال فی الوقت بھی ہے۔ اگست سے اگست تک تعلیمی اداروں کو بند ہوئے ایک سال ہوچکا ہے لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔
جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ اور دو لخت کرنے کے پیچھے اصل منصوبے اب آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ ان منصوبوں کی پہلی کڑی اس وقت سامنے آئی جب پشتینی باشندگی قانون کی جگہ اقامتی قانون متعارف کرایا گیا۔دفعہ 370 اور دفعہ 35 ’اے‘ کے طفیل جموں وکشمیر میں صرف یہاں کے پشتینی باشندوں کو ہی املاک خریدنے اور سرکاری نوکری کرنے کا حق میسر تھا لیکن جب پشتینی باشندگی قوانین کی جگہ نیا اقامتی قانون یا ڈومیسائل قانون لایا گیا تو کشمیر کی مقامی سرکاری نوکریوں کو پورے بھارت کے لیے کھول دیاگیا لیکن جب اس پر احتجاج ہوا تو ذرا سی ترمیم کرکے اقامہ کے حصول کے لیے جموں میں 10 سالہ قیام لازمی قرار دیا گیا۔یوں جموں وکشمیر کی آبادی میں یکایک لاکھوں کا اضافہ ہوگیا جس کو مقامی آبادی بجا طور آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے تناظر میں دیکھ رہی ہے اور مسلم اکثریتی طبقے کو خدشہ ہے کہ اصل منصوبہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔
ان حالات میں کشمیر کی مسلم اکثریت کو خدشہ ہے کہ بھارت اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور منصوبہ بندی سے کشمیر کو فلسطین بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔اب بھارتی فوج جہاں چاہے زمین لے سکتی ہے اور اس کے لیے اسے اس علاقے کو محض ایک اسٹریٹجک علاقہ قرار دینا ہے جس کے بعد وہاں فوجیوں کے لیے فیملی کوارٹرز بھی تعمیر ہوں گے۔ مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ اب جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں اور فوجی خاندانوں کے لیے کالونیاں بنیں گی اور پھر یہ فیملی کالونی والے بھی اقامہ کے دعویٰ گزار ہوں گے۔
لہذا اس وقت کشمیر سکتے میں ہے۔ بھارتی حکومت کے چابک کو دیکھتے ہوئے عوام کے لبوں پر مہرِ خاموشی ہے۔ کشمیر سسک سسک کر مر رہا ہے لیکن اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے اور یہ لاوا کب آتش فشاں بن کر پھوٹ پڑے، کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ پچھلے ستر برسوں سے اپنی شہ رگ قرار دیے جانے والے کشمیر کو پاکستان کھو چکا ہے۔ امریکی دباؤ کے باعث ھکومت پاکستان نے پچھلے ایک برس کے دوران بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سوائے یوم استحصال منانے اور کشمیر کو زبانی کلامی اپنے نقشے میں شامل کرنے کے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری جانب کشمیر جل رہا ہے اور کپتان بانسری بجا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button