عمران خان نے سارا پھڈا آرمی چیف کے لیے ڈال رکھا ہے

معروف اینکر پرسن اور سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے، اس وقت سارا پھڈا نئے آرمی چیف کی تقرری کا ہے، ایک سال پہلے یہ پھڈا تب شروع ہوا جب عمران خان وزیر اعظم تھے۔ وہ جنرل باجوہ کو 2019ء میں تین سال کی توسیع دے چکے تھے لیکن اکتوبر 2021ء میں ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے عہدے کی معیاد پوری ہونے پر جب آئی ایس پی آر نے نئے ایجنسی سربراہ کا اعلان کیا تو خان نے جنرل باجوہ سے پھڈا ڈال لیا۔ موصوف نے جنرل باجوہ کو قبل از وقت فارغ کر کے اپنے ایک ذاتی وفادار کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

حامد میر اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں کہتے ہیں کہ عمران فوج کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے، جب فوج نے آئینی مجبوریوں کے نام پر استعمال ہونے سے انکار کیا تو خان صاحب سیخ پا ہو گئے۔ اسکے بعد جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو عمران نے جنرل باجوہ کے ساتھ پھر سے ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہو گئی۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران نے صدر عارف علوی کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جنرل باجوہ کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی اور ان کے عہدے میں توسیع کی تجویز دے ڈالی۔ لیکن جب اس تجویز کو رد کر دیا گیا تو عمران نے آرمی چیف سمیت کچھ دیگر فوجی افسروں پر براہ راست تنقید شروع کردی۔ 3 نومبر 2022 کو وزیر آباد کے قریب عمران خان پر قاتلانہ حملے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا اور اگلی شام انہوں نے شوکت خانم ہاسپیٹل لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں چار گولیاں لگی ہیں۔ انہوں نے ایک فوجی افسر کا نام لے کر ان پر سنگین الزامات لگائے اور یہ بھی بتا دیا کہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ جواب میں آئی ایس پی آر نے عمران کے الزامات کو سخت الفاظ میں مسترد کر دیا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ اسکے بعد سینیٹر اعظم سواتی نے دھاڑیں مارمار کر ایک پریس کانفرنس کی۔ سواتی صاحب نے جو انکشاف کیا وہ ہمارے لئے نیا نہیں تھا۔ جب عمران وزیر اعظم تھے تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ آصف زرداری، شہباز شریف، مریم نواز اور کچھ دیگر سیاستدانوں کی فلمیں بنائی گئی ہیں۔ اعظم سواتی کو انصاف ملنا چاہئے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ جب تحریک انصاف کے کچھ رہنما سواتی کے معاملے میں فوجی افسران کو گھسیٹ رہے تھے تو اسی شام عمران کی کچھ قریبی شخصیات بعض فوجی افسران سے رابطے کر کے مفاہمت کے راستے تلاش کر رہی تھیں۔

اس وقت پاکستان کو جس پھڈے میں پھنسا دیاگیا ہے اس میں سے نکالنے کیلئے مفاہمت کی کوشش کوئی بری بات نہیں لیکن مفاہمت کیلئے یہ مطالبہ کرنا کہ جنرل قمر باجوہ جاتے جاتے فلاں یا فلاں شخص کو آرمی چیف بنوا دیں تو سب ٹھیک ہو جائیگا، انتہائی نا مناسب ہے۔ مفاہمت کیلئے نئے انتخابات کی تاریخ مانگنا بالکل جائز ہے لیکن اپنی مرضی کا آرمی چیف مانگنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہماری مقبول سیاسی قیادت عوام پر کم اور آرمی چیف پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ یہ کمزوری ہمیں صرف عمران خان میں نظر نہیں آتی۔ ماضی کے اکثر مقبول وزرائے اعظم نے سنیارٹی کو نظر انداز کرکے اپنے من پسند افراد کو آرمی چیف بنایا اور ان میں سے کوئی بھی اپنے من کی مرادیں حاصل نہ کرسکا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 1951ء میں دو سینئر جرنیلوں محمد اکبر خان اور این اے ایم رضا کو نظر انداز کرکے ایوب خان کو آرمی چیف بنایا۔ پاکستانی سیاست کے طالب علموں کو جنرل محمد اکبر خان کی آپ بیتی ’’میری آخری منزل‘‘ ضرور پڑھنی چاہئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ پہلے آرمی چیف کی تقرری سے قبل کونسی سازشیں ہوئیں؟ فوج کے سب سے قابل اور سینئر افسر جنرل افتخار خان اچانک ایک پراسرار فضائی حادثے کا شکار ہو گئے۔ محمد اکبر خان اور این اے ایم رضا کو اسلئے نظر انداز کیا گیا کہ وہ کسی برطانوی افسر کو پاکستانی فوج کا سربراہ بنانے کیخلاف تھے۔ لہٰذا لیاقت علی خان نے سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کے مشورے پر ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ اسی ایوب خان نے سکندر مرزا کی ملی بھگت سے پاکستان میں پہلا مارشل لا لگایا۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان صدر بن گئے تو انہوں نے تین جرنیلوں کی سنیارٹی کو نظر انداز کرکے موسیٰ خان کو آرمی چیف بنا دیا۔ 1966ء میں ایوب خان نے ایک دفعہ پھر دو سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کیا اور یحییٰ خان کو آرمی چیف بنا دیا۔ پھر وہ ووٹ آیا جب یحییٰ خان نے اپنے محسن ایوب خان سے 1969 میں استعفیٰ لیا اور دوسرا مارشل لا لگا دیا۔ 1976 میں ایک مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف کی تقرری میں 7 فوجی افسران کی سنیارٹی کو نظر انداز کیا اور جونیئر ترین افسر جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنا دیا۔ لیکن اس احسان فراموش نے 1977 میں مار شل لا لگایا اور 1979 میں بھٹو صاحب کو پھانسی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل مرڈر تسلیم کیا جاتا ہے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے بعد یہی کام ایک اور مقبول وزیر اعظم نواز شریف نے بار بار کیا۔ 1998ء میں انہوں نے دو فوجی جرنیلوں کی سنیارٹی کو نظر انداز کیا اور جنرل مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔ موصوف نے ایک سال کے اندر اندر نواز شریف کو فارغ کرکے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ نواز شریف نے 2013ء میں ایک بار پھر دو سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا۔ لیکن موصوف فیلڈ مارشل بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ ایک موقع پر راحیل نے مارشل لا لگانے کا بھی سوچا لیکن ساتھی افسروں نے انہیں روک دیا اور نواز شریف بچ گئے۔ 2016ء میں نواز شریف نے چار سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا اور پھر ایک ہی برس بعد وہ جی ٹی روڈ پر خلائی مخلوق کے خلاف نعرے لگاتے نظر آ رہے تھے۔

یاد کیجئے کہ 2019ء میں جنرل باجوہ کے بطور آرمی چیف تین سال مکمل ہوئے تو ملک ایک نئے پھڈے میں پھنسا ہوا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان، لندن میں بیٹھے نواز شریف اور نیب کے قیدی آصف زرداری نے ایک ’’عظیم اتفاق رائے‘‘ کے ساتھ جنرل باجوہ کو توسیع دے دی لیکن سپریم کورٹ نے پوچھا کہ یہ توسیع کس قانون کے تحت دی گئی؟ اس سوال پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سیاستدان پارلیمینٹ میں اکٹھے ہو گئے اور توسیع کا قانون منظور کرا کے سپریم کورٹ کا منہ بند کر دیا۔

لیکن حامد میر کہتے ہیں کہ جس جنرل باجوہ کو عمران خان نے خود توسیع دلائی اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر ان کی توسیع کا قانون بنوایا، آج اسی باجوہ کو وہ بہت بڑا ولن بنا کر پیش کر رہے ہین۔ بدقسمتی سے جناح کے پاکستان میں آرمی چیف کو صدر اور وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے اور اسی لئے ہر وزیر اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتا تھا۔ کیا یہ تقرری صرف اور صرف میرٹ پر نہیں ہوسکتی؟ اگر عمران بھی 2019ء میں میرٹ کا خیال رکھتے تو آج ہاسپیٹل میں پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ نہ بتارہے ہوتے کہ مجھ پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ قانون کے تحت عمران کو اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کرانے کا حق حاصل ہے لیکن جس ملک میں تمام تر طاقت اور اختیار آرمی چیف کے پاس ہو وہاں قانون پیچھے رہ جاتا ہے، اور فوج آگے نکل جاتی ہے۔

Related Articles

Back to top button