عمران خان نے پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے کیسے پہنچایا؟

 سینئر صحافی امتیاز عالم کہتے ہیں سراسیمگی، بے یقینی، قیاس آرائیوں اور تاریکی میں ڈوبے مستقبل کے حوالے سے کوئی اُمید کی کرن کہیں سے پھوٹتی نظر نہیں آرہی۔ پھر بھی لگتا ہے کہ اسی عطار کےلڑکےسے درد کی دوا پانے کے وسیلہ کے بالآخر ملنے کے آثار نمایاں ہوئے تو ہیں۔ جو نسخہ کیمیا نومبر میں مل جانا چاہئے تھا، اُسے وہ چار ماہ کے بلا وجہ توقف سے کڑوے گھونٹ کے طور پر پینا پڑرہا ہے۔ روزنامہ جنگ میں لکھے گئے اپنے تازہ تجزیے میں امتیاز عالم مزید کہتے ہیں کہ یہی نسخہ عمران خان کی حکومت میں دوبار جاری نہ رکھا جاسکا اور پھر اسحاق ڈار نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طرح سے دوست ممالک کی فیاضی سے توازن ادائیگی کو سنبھال کر آئی ایم ایف کے ساتھ آسان شرائط پر معاہدہ ہو، لیکن ان کی چالاکی ن لیگ کی سیاسی ساکھ بچانے کے کام نہ آسکی اور وہ لاچار ہوکر آئی ایم ایف سے معانقہ کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ ایسے میں جب ساری اشرافیہ، میڈیا اور معیشت دان آئی ایم ایف کے کرم خوردہ مالی نسخوں کی رطب اللسانی میں تمام حدیں کراس کرگئے تو بیچارے ڈار کا ڈالر کی بے پرکی اڑان نے خوب تمسخر اُڑایا ۔

امتیاز عالم کے مطابق عمران خان کی بھرپور سیاسی افراتفری سے ڈیفالٹ یقینی تھا اور میڈیا کے پاس نادہندگی کی سراسیمگی پھیلانے کے علاوہ کوئی مقبول کہانی نہ تھی۔ لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے کوئی ایسی بری ڈیل بھی نہیں کی۔ امتیاز عالم کہتے ہیں دنیا بھر سے بھی سیلاب زدہ پاکستان میں غریبوں پر مزید بوجھ نہ ڈالنے کی دہائی دی جارہی تھی لہٰذا بات 170 ارب کے نئے ٹیکسوں، مراعات یافتہ طبقات کو دی گئی کچھ چھوٹوں کے خاتمے اور توانائی کے شعبے میں جاری مفت خوری اور چوری چکاری کو مزید بڑھنے سے روکنے پہ ختم ہوگئی اور صارفین کو بجلی کی قیمتوں پہ مزید 237 ارب ادا کرنے ہوں گے اور 300یونٹ تک کے صارفین کی بچت ہوگئی ہے۔ لیکن بار بار معاہدے توڑنے والے ملک پہ کوئی اعتبار کرے تو کیوں کرے۔

امتیاز عالم  کے بقول  آئی ایم ایف نے پہلے عمل کرو پھر رقم لو کے مصداق کوئی راہ فرار نہیں چھوڑی۔ بدترین حالات میں یہ معاہدہ وقتی استحکام کا باعث تو بنے گا، لیکن ہماری ازلی بیماریوں کا تریاق نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ قرضوں کو ری شیڈول کروائے بنا اگلے پانچ برس میں مالی و مالیاتی استحکام کیسے آئے گا۔ اگلے پانچ برس پاکستان کو ہر سال 25 ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دس ارب ڈالرز بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لئے درکار ہوں گے۔ اگر قرضوں کا بار ایسے ہی رہا تو کسی طرح کی کوئی حکومت چل نہیں پائے گی۔ امتیاز عالم  مزید کہتے ہیں کہ جانے کیوں ڈار صاحب کس زعم میں قرضوں کو ری شیڈول کروانے کی طرف راغب نہیں ہورہے؟ اس کے سوا چارہ نہیں۔ قرضوں کا التوا ہو بھی جائے تو بھی یہ دست نگر، کرایہ خور اور مفت خور معیشت اور ریاست چلنے والی نہیں۔ پاکستان کی جتنی آمدنی ہے اس سے آدھے خرچے پہ چلنے والی ریاست چاہئے۔

امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ  اشرافیہ، سول و ملٹری و جوڈیشل بیوروکریسی کے رہن سہن، مراعات و مفادات کو دیکھتے ہوئے، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک دیوالیہ اور خستہ حال ملک کے حکمران ہیں۔ ایسے اللے تللے تو ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کے نصیب میں بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں کفایت شعاری کی کمیٹی نے بڑا تیر مارا ہے تو اخراجات و مراعات میں 15 فیصد کمی کی۔ ریاست اور اس کے کالے صاحبوں کے مصارف میں کم از کم 50 فیصد کٹوتی کیوں نہیں کی جاتی اور ایک پلاٹ کی رعایت بھی کیوں برقرار رکھی جارہی ہے جبکہ دو پلاٹوں کے دفاع میں حکومت اپیل میں جاچکی ہے اور ہمارے پنجاب اسپیڈ والے وزیراعظم کی کابینہ شرمناک طور پر وسیع ہوکر 84 اراکین کا ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔ بیوروکریٹس کو حال ہی میں 150 فیصد تک اضافی الائونس کا اعلان کسی برتے پہ کیا گیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی جو تنخواہیں اور مراعات ہیں وہ تیسری دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہیں۔

امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ اسی طرح پاک افواج دنیا کی سب سے مراعات یافتہ سپاہ کیوں ہیں اور ان کے افسران کروڑوں اور اربوں روپے کے وظائف کس مال غنیمہ سے حاصل کررہے ہیں۔ ایک غریب ملک کی ایسی عیاش ریاست دنیا میں کہیں نہیں۔ ہماری زمیندار اشرافیہ کو دیکھ لیں۔ مراعات ہی مراعات اور ہر طرح کی استثنیات ۔ رہے سرمایہ دار جو ہر وقت تحفظات و رعایات کے مطالبات کرتے رہتے ہیں، لیکن معیشت کو توانا بنانے اور ملک کو دست نگری سے نکالنے کیلئے کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔ ذرا تاجر برادری سے بھی ٹیکس لے کر دکھائیں اور معیشت کو دستاویزاتی بنانے کا جتن تو کر کے دیکھیں، پھر دیکھیے ’’شوکتِ اسلام‘‘ کے کتنے جلوس نکلتے ہیں۔ نظام تعلیم فارغ ہے اور اس سے تحصیل یافتہ ٹیم پڑھے لکھے اور بے ہنر نوجوانوں کی فوج بوگس ڈگریاں تھامے دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔ صحت و انسانی سلامتی اور روزگار کے مواقع ہماری قومی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتے۔ جو ملک چلتا ہی رہا ہو بیرونی ایڈ کے سہارے، وہ اپنے پائوں میں کھڑا ہو تو کیسے۔

امتیاز عالم کا کہنا ہے کی بھلے ’’تبدیلی والے‘‘ ہوں یا پھر ’’ووٹ کو عزت دینے والے‘‘ یا پھر ’’طاقت کا سرچشمہ عوام والے‘‘سبھی نے سفاکانہ طریقے سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ بس مافیاز اور اشرافیہ کا قبضہ ہے اور امرا کی مشکلوں کے حل کیلئے تمام تر ذرائع استعمال ہورہے ہیں۔ نہ جانے یہ تماشہ کب اور کیسے ختم ہوگا؟

Related Articles

Back to top button