عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بننے کا پکا یقین کیوں ہے؟

سینئرصحافی اورتجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو اقتدارسے نکلنے اورمختلف کیسز میں عدالتوں کے دھکے کھانے کے باوجود کامل یقین ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد اقتدارکا ہما ان ہی کے سر پر بیٹھے گا۔ تاہم شرط یہ ہے کہ وہ عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیے جانے سے بچ جائیں۔ اوراسی کوشش میں انہوں نے اپنے امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے یو ٹرن لیتے ہوئے انکل سام اور جنرل باجوہ سے پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کردی ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اپنی ضد منوانے کا ہنر کوئی عمران خان سے سیکھے۔ کم از کم تین بڑی سیاسی جماعتوں میں شامل انکے مخالف سیاست دان خود کو بہت کائیاں اور تجربہ کار تصور کرتے ہیں۔ صدارت اور وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر فائز رہنے والے ان سیاستدانوں کی اکثریت 1985 سے اقتدار کے شاطر کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ رواں برس کا آغاز ہوا تو باہمی اختلافات بھلا کر یہ کائیاں اور تجربہ کار سیاست دان عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کرنے کے لئے یکسو ہو گئے۔انہیں یہ گیم لگانے کا موقع اس گماں نے فراہم کیا کہ آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی پر کھڑے ہونے والے تنازعے نے ”سیم پیج“ والی محبتیں ختم کردی ہیں اور عمران حکومت اب ریت کی دیوار بن چکی ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ محض ایک دھکا اسے گرانے کے لئے کافی ہوگا۔
تاہم نصرت جاوید کہتے ہیں کہ میرا تب بھی یہ موقف تھا کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل محلاتی سازشوں کے ذریعے ہٹانا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ایسے میں پی ڈی ایم کے کائیاں اور تجربہ کار سیاست دان مجھے یہ بتانے کو مجبور ہو گئے کہ انکی سیاسی بقا کے لئے ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ والا مرحلہ آچکا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ عمران خان یہ طے کر چکے ہیں کہ نومبر 2022ء تک نئے آرمی چیف کی معیاد ملازمت ختم ہونے کا انتظار نہ کیا جائے۔ اس سے چھ ماہ قبل ہی 29 مئی کے دن انکے ”جانشین“ کو نامزد کر دیا جائے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں ایسا واقعہ 1991 میں بھی رونما ہوا تھا جب جنرل آصف نواز کو اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل متوقع آرمی چیف نامزد کردیا گیا تھا۔ اب کی بار یہ عمل چھ ماہ قبل دہرانے کی افواہیں چلیں۔ جنرل باجوہ کی جگہ متوقع نامزدگی کے حوالے سے فقط ایک ہی نام گردش میں رہا جو کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تھا۔ یہ نام عمران مخالف سیاست دانوں کو خوفزدہ کر دینے کے لیے کافی تھا۔ اس خوف سے جان چھڑانے کے لئے فیصلہ ہوا کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی ہر صورت 29 مئی 2022ء سے قبل یقینی بنائی جائے گی۔ لیکن سابق وزیر اعظم کو بھی اپنے خلاف بنائی گئی گیم کا بھر پور علم تھا۔ وہ ”صبح گیا یا شام گیا“ والی حقیقت بروقت جان گئے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اسی منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان نے کمال ہوشیاری سے پیٹرول اور بجلی کے نرخوں کو کم کرنے کا اعلان کر دیا حالانکہ عمران حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی رو سے ان کے نرخوں میں اضافہ ہونا تھا۔ اس کے بعد خان صاحب روس کے صدر سے ملاقات کو بھی روانہ ہوگئے۔ واشنگٹن نے اس بار ے خفگی کا اظہار کیا تو خان صاحب نے امریکی سازش کا واویلا مچانا شروع کر دیا۔ اور پھر جب یہ نام نہاد سازش کامیاب ہو گئی تو عمران خان نے فوجی قیادت میں موجود ”میر جعفروں“ کے لتے بھی لینا شروع کر دیے۔ اقتدار سے فارغ کئے جانے کے بعد عمران نے روایتی اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطہ استوار رکھنے کے ہر ممکن ذریعہ کو ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو قائل کردیا کہ انہیں ”میر جعفروں“ اور ان کے سرپرست امریکہ سے ”حقیقی آزادی“ کی جنگ لڑنا ہوگی۔ ان کے برعکس عمران خان کی جگہ لینے والی شہباز حکومت آئی ایم ایف کو رام کرنے میں جتی رہی۔ ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانا اس نے اپنا یک و تنہا ہدف ٹھہرایا اور اس ضمن میں اپنی ”سیاست“ قربان کرنے کا دعویٰ بھی کرتی رہی۔
نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ شہباز حکومت میں شامل جماعتیں اپنی سیاست کی ”قربانی“ سے فارغ ہو چکیں تو مہنگائی کی بدترین لہر نے انہیں عوامی نفرت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ دریں اثناء پاکستان میں تعینات ہوئے امریکی سفیر نے تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت سے روابط استوار کئے۔ ان کی سفارتی مہارت نے تحریک انصاف کی قیادت کو بتدریج قائل کرنا شروع کر دیا کہ امریکہ عمران خان کا ویری نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانا چاہ رہا ہے۔ جوابی محبت کا اظہار کرتے ہوئے عمران نے بھی کامران خان کے ساتھ انٹرویو میں نہ صرف یہ اعلان کردیا کہ ان کی امریکہ سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے بھی رنجشیں بھلاتے ہوئے ان کے عہدے میں توسیع کی تجویز دے ڈالی۔ مختصر یہ کہ اس انٹرویو میں خان صاحب نے فراخ دل فاتح کی طرح چور اور نکمے سیاست دانوں کے علاوہ اپنے ہر ویری کو معاف کردیا۔ ان کا تقاضا اب فقط فی الفور نئے انتخاب کا انعقاد ہے تا آنکہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ اقتدار میں واپس لوٹ کر ملک کو حقیقی آزادی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ نئے آرمی چیف کی سلیکشن کے انتظار میں وہ نومبر 2022 کے دن متوقع تعیناتی کو مزید چند مہینوں تک ٹالنے کو بھی آمادہ ہیں۔ انکی خواہش ہے کہ صاف ستھرے الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت ہی اس تعیناتی کا فیصلہ کرے۔ ایسی فراخ دلی دکھاتے ہوئے اگرچہ انہیں کامل اعتماد ہے کہ متوقع فیصلہ ان کے ہاتھوں ہی سرانجام پائے گا۔ شاید ”ہما“ بالآخر ان ہی صاحب کے سر بیٹھے جن کے نام سے گھبرا کر شہباز شریف اور ان کے ہمنوا بہت اشتیاق سے سو جوتوں کے علاوہ سو پیاز کھانے کو بھی ہنسی خوشی آمادہ ہوئے تھے۔