عمران فوجی کردار کا خاتمہ چاہتے ہیں یا اسکا ساتھ؟

اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے فوج مخالف بیانیہ لے کر چلنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنا یہ پرانا موقف دہرایا ہے کہ پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ختم کرنا ناممکن ہے اور اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لینا چاہیئے۔ اگرچہ عمران خان کے بہت ساری حامی اب انہیں ایک جمہوریت پسند سیاستدان کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کا فوج مخالف بیانیہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اس بیانیے سے جو دباؤ ڈال رہے ہیں اس کا بنیادی مقصد فوج کا سیاسی کردار ختم کرنے کی بجائے اسے برقرار رکھنا ہے، کیونکہ ان کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ فوج حکومت کو چھوڑ کر ان کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔ زمان پارک لاہور میں ڈان اخبار سے ایک انٹرویو میں فوج کے کردار بارے گفتگو کرتے عمران نے کہا کہ ’فوج کے سیاسی کردار کو مکمل طور پر ختم کردینا خام خیالی ہوگا، فوج کئی برسوں سے اقتدار میں ہے لیکن ایک توازن لانے کی ضرورت ہے، یہ سوچنا کہ فوج کو سیاست سے باہر کر دیا جائے ناممکن ہے، فوج کی طاقت کا تعمیری استعمال پاکستان کو ادارہ جاتی بحران سے نکال سکتا ہے۔

یاد رہے کہ عمران پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کروا کر انہیں وزیراعظم بنایا تھا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اس الزام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی غلطی مانتی ہے۔ لیکن ایک سوال پر عمران نے 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے برسراقتدار آنے کے الزام کو سختی سے رد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ انہیں وزیر اعظم بنانے کے لیے فوج نے مدد نہیں کی تھی بلکہ وہ اپنے زور سے ہی حکمران بنے تھے۔ عمران کے مطابق 2018 میں وہ جنرل قمر باجوہ کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کی وجہ سے الیکشن جیتے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ ’فوج نے 2018 کے الیکشن میں میرا ساتھ نہیں دیا تھا، مجھے یقین ہے کہ ہم جائز اور منصفانہ طریقے سے جیتے تھے۔

انٹرویو کے دوران عمران نے کہا کہ ’میں گزشتہ 6 ماہ میں اقتدار سے باہر ہوں، اس دوران میں نے 37 ضمنی انتخابات میں سے 29 میں کامیابی حاصل کی ہے، حالانکہ اس وقت الیکشن کمیشن بھی ان کی حمایت کر رہا ہے، اس کے باوجود ہم نے 37 میں سے 29 ضمنی انتخابات جیت لیے‘۔ انتخابات اور دھاندلی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آئندہ انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں متعارف کرانے کی کوششوں کی بھی فوج نے مخالفت کی۔

عمران خان نے کہا کہ 2 برس تک میں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں حاصل کرنے کی کوشش کی، آپ کے پاس ای وی ایم ہو تو دھاندلی کا امکان ختم ہوجاتا ہے کیونکہ ساری دھاندلی پولنگ ختم ہونے کے بعد ہوتی ہے، مگر دونوں بڑی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی کیونکہ زیادہ تر حلقوں میں انہیں جعلی ووٹ ہی ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی ای وی ایم کی مخالفت کی گئی، کیونکہ ووٹوں میں ہیرپھیر ووٹوں کی گنتی کے دوران ہی ممکن ہوتی ہے، یاد کریں وہ وقت جب خواجہ آصف ہار رہے تھے تو جنرل باجوہ نے بتایا تھا کہ انہیں خواجہ آصف کی مدد کے لیے کال آئی تھی؟ اور پھر اگلے روز وہ جیت گئے تھے۔

گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت پر دھاندلی کے الزامات سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے 3 ہزار ووٹوں کے مارجن سے 17 سیٹیں کھو دی تھیں، اگر اسٹیبلشمنٹ ہماری مدد کرنا چاہتی تو ہم آسانی سے یہ سیٹیں حاصل کر سکتے تھے۔ عمران خان نے تسلیم کیا کہ کمزور اکثریت پر مبنی حکومت ان کا سب سے بڑا چیلنج تھی، اور اگر انہیں دوبارہ کمزور حکومت ملی تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ ’ہمارے پاس اختیار نہیں تھا، اس بار اگر مجھے واضح اکثریت نہ ملی تو میں اقتدار قبول نہیں کروں گا کیونکہ اگر آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے تو آپ کوئی کام نہیں کر سکتے، اگر کمزور اکثریت کے ساتھ آپ کی اتحادی حکومت ہو اور آپ کو آپ کے اپنے ہی لوگ بلیک میل کرتے رہیں تو حکومت کرنا ناممکن ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ ایسی صورت حال میں فوج کا کردار زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ ہمیں ان کی مدد کی ضرورت تھی اور ہم اسی مقصد کے لیے مل کر کام کر رہے تھے۔

فوج اور اپنے تعلقات بگڑنے کے آغاز سے متعلق سوال پر عمران نے بتایا کہ ان کی حکومت کی جانب سے ان لوگوں کو سزا دینے میں ناکامی اس کا پہلا اشارہ تھی جن پر وہ کرپشن کا الزام عائد کرتے آئے تھے، دوسرا معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب تھا۔ عمران خان نے بتایا کہ ’آرمی چیف چاہتے تھے کہ میں علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ دوں اور میں ایسا نہیں چاہتا تھا کیونکہ ان کے خلاف نہ صرف نیب کے مقدمات تھے بلکہ انہوں نے حکومت کی کروڑوں مالیت کی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں فروخت کردیا تھا‘۔ ناجائز اقدامات میں ملوث ہونے کے شبے کے باوجود علیم خان کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ یہ سمجھا کہ یہ محض الزامات ہیں اور علیم بھی ان الزامات پر اپنا دفاع کرتے تھے لیکن جب میں نے ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین سے علیم خان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے نقشہ دکھایا کہ علیم خان نے کس طرح سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ میری حکومت کے دوسرے سال کے اختتام اور تیسرے سال کے آغاز کے قریب ہوا۔

عمران خان نے واضح کیا کہ علیم خان کے وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے مطالبے تک جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کے تعلقات ہموار انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ عمران نیب کی عدم فعالیت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاملے کو فوج کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی وجہ قرار دیتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ دراصل نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر آرمی چیف کے ساتھ ان کے اختلافات تھے۔ اس حوالے سے عمران نے کہا کہ ’دیکھیں مجھے فوج کی اندرونی سیاست کا علم نہیں، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ فوج کے ساتھ ہمارا تعلق اچھا چل رہا تھا، مجھے بعد میں پتا چلا کہ اگلے آرمی چیف کے بارے میں بڑا مسئلہ چل رہا ہے، میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ نومبر میں اگلا آرمی چیف کون بنے گا، اگر میرٹ پر ہو تو مجھے کیوں پروا ہوگی؟ بس اسے ایک بہترین انسان ہونا چاہیے، یہ معاملہ شریفوں اور زرداریوں کے لیے اہم ہوسکتا ہے لیکن میرے لیے نہیں۔

جنرل فیض حمید کو ان کا انتخاب سمجھے جانے کے تاثر کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ’جنرل فیض واحد جنرل ہیں جنہیں میں جانتا تھا کیونکہ وہ میرے ساتھ سربراہ آئی ایس آئی کے طور پر کام کر رہے تھے، میں کسی اور کو نہیں جانتا تھا، میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ میں آپ کی تجاویز لوں گا کیونکہ میں دیگر امیدواروں کو نہیں جانتا، لیکن اس وقت میری پریشانی افغانستان تھی، مجھے خدشہ تھا کہ یہ خانہ جنگی کی نذر ہوجائے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ امریکی ہم پر الزام عائد کریں گے اور ہم پر پابندیاں عائد کی جائیں گی، اشرف غنی نے مجھے بتایا کہ وہاں 3 لاکھ افغان فوجی ہیں اور ان کی تعداد بڑھے گی‘۔ انہوں نے کہا کہ ’صرف اشرف غنی ہی نہیں، آئی ایس آئی بھی ہمیں بتا رہی تھی کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی، میں چاہتا تھا کہ جنرل فیض موسم سرما میں اس وقت تک عہدے پر رہیں جب تک افغانستان میں اقتدار کی منتقلی نہیں ہو جاتی۔

Related Articles

Back to top button