عمران مذہبی جنونی کا حملہ فوج پر کیوں ڈال رہے ہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ ان پر قاتلانہ حملہ کرنے والا ایک مذہبی جنونی ہے جس نے یہ قبیح حرکت انفرادی طور پر کی ہے لیکن وہ حقیقی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے اس کیس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں حکومت اور اداروں کو بدنام کر رہے ہیں جو کہ انکی پرانی روش ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے دوران عمران خان کو نشانہ بنانے کا واقعہ ہر پہلو سے قابل مذمت ہے۔ پسٹل سمیت ایک شخص کی گرفتاری کی ویڈیو محفوظ ہو گئی جسے پورا پاکستان بار بار دیکھ چکا ہے۔ اب تک سامنے آنے والی تین ویڈیوز میں جو کچھ اُس نے کہا، وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور صاف پتا چلتا ہے کہ وہ ایک مذہبی جنونی ہے جو خان صاحب کی جانب سے سے اپنا موازنہ نبی پاک ؐکی ذات سے کیے جانے کی وجہ سے نالاں تھا۔ مزید شواہد سامنے آرہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں یہ پتہ چلانا مشکل نہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے،کس حد تک درست ہے۔ اس کا فون بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو سچ تک رسائی کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہئے۔ اگر وہ سچ کہہ رہا ہے اور یہ معاملہ مذہبی جنونیت کی ویسی ہی واردات ہے جیسی ماضی میں ہوتی رہی ہیں تو اس پر اُسی زاویے سے نگاہ ڈالنی چاہئے۔
وزیراعلیٰ پرویز الٰہی سمیت پی ٹی آئی کی پوری قیادت، کیمروں کے سامنے آنے والے پستول بردار نشانہ باز، اُسے گرفت میں لینے والے کارکن کی گواہی اور خود ملزم کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ ممکن ہے تحریک انصاف کے پاس اس کی کوئی ٹھوس منطق ہو۔ بظاہر اس کی ایک ہی وجہ دکھائی دیتی ہے،وہ یہ کہ ملزم کا اعترافی بیان، مذہبی جنونیت میں مبتلا ایک غیر متوازن ذہن کی ترجمانی کرتا ہے۔ تحریک انصاف اسے درست مان لے تو افسوسناک وقوعے کا رخ سیاسی اہداف کی طرف موڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے کروڑوں انسانوں کے سامنے مسلح ملزم کی گرفتاری کو جھٹلانا بہرحال مشکل ہے۔ اسکے اعترافی بیانات پر سوال اٹھانا بھی کارِ محال ہے۔
لیکن عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ اس سب کو تسلیم کر لینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عمران پر حملے میں وفاقی حکومت اور کسی خفیہ ادارے پر الزام نہیں آئے گا جو اس وقت عمران کا بنیادی مطالبہ ہے۔ یہ مان لیا جائے تو کئی روز دن کو برساتی کینچوے کی طرح رینگتے اور رات کو کنڈلی مار کر سو جانے والے لانگ مارچ کی بے ثمری کا کیا کیا جائے؟عمران خان کے سیاسی افکار و اعمال پر ہزار اعتراضات کئے جا سکتے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔ اپریل 2022ءمیں آئینی طریق کار کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر دیئے جانے کے بعد سے وہ مسلسل آتش زیر پا ہیں۔ اپوزیشن کی قراردادِ عدم اعتماد کو امریکہ کی سازش قرار دیتے ہوئے انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں کو بھی نشانے پہ رکھ لیا۔ تنقید کو تضحیک کی حدوں تک لے گئے، اپنے مداحوں کے لہو میں مخالفین کے خلاف شعلہ فشاں نفرتوں کے بیج بوتے اور اُن کی سوچوں پر مسلسل بارود پاشی کرتے رہے۔ خود کو حق،سچ، خیر اور صالحیت کا مثالی نمونہ قرار دیتے ہوئے اپنی سیاسی حرکیات کو جہاد کا درجہ دیتے رہے۔ مخالفین کو منکرین، منافقین اور مرتدین کے طور پر قابل ِگردن زدنی قرار دیتے رہے۔ سرِراہ دوسروں پر آوازیں کسنے اور پگڑیاں اچھالنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے سینے میں پیوست گولی کو تو ایک مدت ہو چکی، بےنظیر بھٹو شہید کے زخموں سے ابھی تک لہو رس رہا ہے۔ قومی سیاست اس طرح کی خونریزی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سیاست کی ہر کروٹ سے مفاد کثیروا سہی۔ لیکن جب معاملہ عمران پر قاتلانہ حملے جیسی سنگین واردات کا ہو تو ایسی طفلانہ مشق سے گریز کرنا چاہئے۔
عرفان صدیقی کے بقول یہ بات قابل فہم ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو چیتے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ دونوں خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں معتوب رہے۔دونوں پر مقدمات بنے، دونوں جیلوں میں ڈالے گئے۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قاتلانہ حملے کے فوراً بعد جبکہ فائرنگ کرنے والا ملزم گرفت میں بھی آچکا ہے، خان صاحب مرہم پٹی سے فارغ ہوتے ہی اپنے مصاحبین کے ذریعے قتل کا الزام، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر لگا دیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ یہ مطالبہ بھی کر دیں کہ تینوں فی الفور مستعفی ہو جائیں۔ لمحہ بھر کو سوچیے۔ اگر حکومت پی ڈی ایم کی ہوتی۔ اگر تب بھی پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوتے اگر تب بھی یہ افسوسناک واقعہ گجرات کے گردو نواح میں پیش آیا ہوتا تو خان صاحب کا موقف کیا ہوتا؟ بدقسمتی سے عمران خان حقیقی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے اس قاتلانہ حملے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں حکومت اور اداروں کو بدنام کر رہے ہیں جو کہ انکی پرانی روش ہے۔