عمران نے روس میں چیچنیا کے قصاب سے ملاقات کیوں کی؟


سینیئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی انا کو امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے اہمیت نہ ملنے پر جو ٹھیس پہنچی اس کا بدلہ لینے کی کوشش میں قومی مفادات کو خطرے میں ڈالنا سراسر بیوقوفی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اس وقت خان صرف پوٹن کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ عملی طور پر بھارت کا بھی ساتھ دے رہا ہے جو یوکرین کو کشمیر پر اصولی مؤقف اپنانے کی سزا دینا چاہتا ہے۔ یوں عمران خان نے بھارت کو مغرب سے دور کرنے کا ایک موقع کھو دیا۔
معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں عمران خان کا روسی صدر پوٹن سے نیا رومانس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے بڑا دھچکا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم اپنے سیاسی U ٹرن کے لئے مشہور ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے وہ اپنے U ٹرن لینے کی صلاحیت پر بہت فخر کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں U ٹرن لینا عظیم رہنماؤں کی نشانی ہے، اسی لئے لوگوں نے ان کا نام U-turn خان رکھ ڈالا ہے۔ لیکن حامد میر کے بقول ان کی حالیہ پالیسی چینج مجھ جیسے لوگوں کے لئے ایک جھٹکا ہے جو 90 کی دہائی سے انکی سیاست دیکھ رہے ہیں۔ تب وہ خود کو انسانی حقوق کے چیمپیئن کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اور اب وہ دنیا کے پہلے غیر ملکی لیڈر ہیں جنہوں نے یوکرین پر حملے کے بعد پوٹن سے ملاقات کی اور اس پر خوب شادیانے بھی بجوائے گئے۔ مجھے یاد ہے جب عمران خان نے ایک مرتبہ اسلام آباد میں روسی افواج کی جانب سے چیچنیا میں قتلِ عام پر احتجاج کیا تھا۔ ان کی سابقہ برطانوی اہلیہ جمائما خان اور ان کے دو بیٹوں نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ عمران خان نے ماسکو کے خلاف ایک بھرپور تقریر کی تھی اور احتجاج کے شرکا نے ‘روس مردہ باد’ کے نعرے لگائے تھے۔ اسی دن مظاہرے کے بعد انہوں نے مجھے میرے آفس میں کال کی اور تجویز دی کہ ہمیں روس کی چیچنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک اداریہ لکھنا چاہیے، جو کہ ہم نے بعد میں لکھا بھی۔
حامد میر سوال کرتے ہیں کہ کیا عمران خان بھول گئے کہ یہ ولادی میر پوٹن ہی تھا جس نے 1999 میں بطور روسی وزیر اعظم چیچنیا پر ماسکو کی دوسری یلغار کا آغاز کیا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد ایک سابق چیچن باغی احمد قادروو روسی فوج کے ساتھ مل گیا اور اس نے جمہوری چیچنیا پر قبضہ کرنے میں پوٹن کی بھرپور مدد کی۔ بعد ازاں قادروو ایک فراڈ الیکشن کے ذریعے چیچنیا کا صدر بن گیا۔ پھر اسے قتل کر دیا گیا اور کچھ سال بعد اسکے بیٹے رمضان نے اقتدار سنبھال لیا جو آج بھی وہاں حکومت میں ہے۔ امریکی حکومت نے 2020 میں رمضان قادروو کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ اس کے باوجود اپنے ماسکو دورے کے دوران عمران خان نے خاص طور پر اس شخص سے ملاقات کی جسے کچھ لوگ ‘چیچنیا کا قصاب’ کہتے ہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ خان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھنا انتہائی حیران کن ہے۔ لیکن بڑا سوال آج بھی وہی ہے کہ عمران نے یوکرین کو دھوکہ کیوں دیا جس نے ہمیشہ کشمیر کے معاملے پر اسلام آباد کا ساتھ دیا تھا؟ بھارت کا یوکرین حملے پر روس کی مذمت نہ کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ دلی اور ماسکو کے درمیان دوستانہ تعلقات سؤویت دور سے موجود ہیں اور اس وقت روس بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔ روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد مرتبہ بھارت کا ساتھ دیا ہے، اس نے کشمیر کے معاملے پر دلی کے خلاف کئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔ آج بہت سے بھارتی شہری یوکرین حملے پر پوٹن کی حمایت اس لئے کر رہے ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ پوٹن کا یوکرین پر مؤقف بھارت کے کشمیر پر مؤقف سے ملتا جلتا ہے۔ ایک بھارتی ویب سائٹ پر چھپنے والے ایک مضمون میں لکھا گیا ہے کہ پوٹن کو “بس روس کا نقشہ تبدیل کر کے اس میں یوکرین کو شامل کر لینا چاہیے، جیسا ہم نے کشمیر کے ساتھ کیا”۔ دراصل بھارتی یہ بھلانے کے لئے تیار نہیں کہ جب مودی سرکار نے 2019 میں جموں و کشمیر کی خود مختاری ختم کی تھی تو یوکرین نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اگلے سال بھارت نے سلامتی کونسل میں یوکرین کی لائی ہوئی قرارداد کی مخالفت کی جس میں کریمیا میں روس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تنقید کا ہدف بنایا گیا تھا۔ بھارتی یوکرین کو پاکستان کے ساتھ اسلحے کے سودوں پر بھی سبق سکھانا چاہتے تھے۔ ابھی پچھلے ہی سال پاکستان نے یوکرین کو ایک ساڑھے 8 کروڑ ڈالر کا ٹھیکہ دیا جس کے مطابق 90 کی دہائی میں خریدے گئے T-80UD ٹینکوں کو جدید بنایا جانا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان ان 35 ممالک میں شامل ہو گیا جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے احتراز کیا۔
بقول حامد میر، عمران خان مغرب مخالف کارڈ کھیلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ جب یورپی یونین کے 23 ممالک نے پاکستان سے یوکرائن پر روسی حملے کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا تو عمران نے ان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ کشمیر میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر ان ممالک نے بھارت پر تنقید کیوں نہیں کی۔ لہذا روس سے متعلق پالیسی پر سفارتی طور پر عمران خان بھی اب اسی کیمپ میں سامل ہو چکے ہیں جس میں بھارت ہے، کیونکہ اس نے بھی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے احتراز کیا ہے۔ بقول حامد میر، یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ کیا عمران کی یہ روس نواز پالیسی پاکستان کے قومی مفاد میں بھی ہے یا نہیں۔ کچھ پاکستانی مبصرین نے توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کے امریکہ اور یورپ کے ساتھ تجارتی تعلقات اس کی روس کے ساتھ تجارت کے حجم سے کئی گنا بڑے ہیں۔ تو پھر ہم کیوں ماسکو کے ساتھ چل پڑے؟ اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کو مغرب مخالف جذبات ابھار کر شکست دینا چاہتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک بین الاقوامی تنازع میں کسی فریق کا ساتھ نہ دے کر عمران ایک متوازن اور خود مختار خارجہ پالیسی لا رہا ہے۔ لیکن پاکستان امریکہ کا ایک بڑا غیر نیٹو اتحادی بھی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ کیسے چل سکتی ہیں؟ حامد میر کہتے ہیں کہ ویسے بھی اس نام نہاد ‘توازن’ کے نام پر عمران خان روسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ وہ س2ال۔کرتے ہیں کہ کیا وزیر اعظم اس مصنوعی غیر جانبداری کے نتائج سے مکمل طور پر باخبر بھی ہیں؟ اس سے ہمارے امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید خراب ہوں گے جس سے عالمی برادری میں ہماری گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کی کوششوں کو دھچکا پہنچے گا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ ایک اعلیٰ بھارتی عہدیدار نے حال ہی میں یوکرین کو پاکستان کو اسلحہ بیچنے کا طعنہ دیا۔ لیکن عمران خان بھی یوکرین کا ساتھ نہ دے کر بھارتیوں کو ہی خوش کر رہے ہیں۔ شاید صدر بائیڈن نے ان کو زیادہ اہمیت نہ دے کر عمران خان کی انا کو ٹھیس پہنچائی ہے – مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے قومی مفادات کا خیال نہ رکھا جائے۔ خان صرف پوٹن کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ عملی طور پر بھارت کا بھی ساتھ دے رہا ہے جو یوکرین کو کشمیر پر اصولی مؤقف اپنانے کی سزا دے رہا ہے۔ یوں عمران خان نے بھارت کو مغرب سے دور کرنے کا ایک موقع کھو دیا۔ ان کا پوٹن سے یہ نیا رومانس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے بڑا دھچکا ہے۔

Related Articles

Back to top button