عمران کا فوج کی گود چڑھنے کا خواب چکنا چور ہو گیا

اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ سے سیاست میں ملوث کرنے اور اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوششیں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فوج نے بطور ادارہ اپنی سابقہ غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اس کو درست کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ویسے بھی عمران خان نے پچھلے چھ ماہ سے دھمکیوں اور گالی گلوچ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ فوج جیسے منظم ادارے پر کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ اسی لیے عمران خان کی جانب سے فوری الیکشن کرانے کا مطالبہ رد کر دیا گیا ہے اور اب ان کا احتساب شروع ہو چکا ہے۔ ایسے میں اب عمران خان کا دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کی گود چڑھنے کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔
موجودہ سیاسی صورتحال پر بی بی سی کے لئے ایک تحریر میں معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ فوج کے ادارے نے بڑی بیٹھک میں فیصلہ کیا ہے کہ اب سیاست میں مزید مداخلت نہیں ہو گی اور اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کیا جائے گا۔ انکاکہنا ہے کہ یہ اصولی فیصلہ ادارے کے سینکڑوں سینئر افسران نے مل کر کیا جس میں آنے والے کئی چیفس بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ادارے کو اپنے اس نئے عہد پر قائم بھی رہنا ہو گا اور اگر اسکی سمت یہی رہی تو چند چھوٹے موٹے وائرس سسٹم کو ناکام نہیں بنا سکتے۔ عاصمہ کے مطابق اگر کسی سیاسی رہنما کی خواہش پر آئینی حدود عبور نہ کی گئیں اور ملک کا فیصلہ پارلیمنٹ اور آئین پر چھوڑ دیا گیا تو چند اشخاص کی طوائف الملوکی کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ہر جانب غبار ہی غبار ہے، آلودہ سیاسی ماحول مزید آلودگی کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ آخری لڑائی کتنی طویل ہے اور کیا انجام لائے گی خبر نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ معاملات جب کئی لوگوں کے پاس ہوں اور کمان کئی ہاتھوں میں تو تیر کہاں سے آئے گا اور کس کس کو چھلنی کرے گا یہ پتہ نہیں چلتا۔ لیکن ’طوائف الملوکی‘ کیا ہے؟ اس کی اصل شکل اب دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگر ڈکشنری میں طوائف الملوکی کے معنی دیکھیں تو نقشہ وطن عزیز کا ہی نکلتا ہے یعنی ’ایسی حالت یا زمانہ جس میں کسی خاص حکمران کا حکم نہ چلے بلکہ کئی امرا یا بادشاہ اپنا اپنا حکم چلائیں، بدنظمی، ابتری، سیاسی انتشار ہو۔‘ اب ان معانی کے معنی ڈھونڈنا تو میرے بس کا کام نہیں البتہ حالیہ دنوں میں منظر عام پر آنے والی آڈیو لیکس کی کہانی کُھل رہی ہے۔ عجب دن ہیں کہ انٹرنیٹ پر ہیکرز سامنے ہیں اور بے چہرہ اہم کرداروں کی جنگ میں ایندھن کے طور استعمال کوئی اور ہو رہا ہے۔
اب یہ سوال کوئی کیونکر پوچھے کہ ایک آڈیو یہاں سے شہباز شریف کی آتی ہے تو دوسری آڈیو وہاں سے عمران خان کی کیسے آ جاتی ہے اور کون نکالتا ہے؟دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ جس خط کے گرد کہانی کا پلاٹ تیار ہوا تھا وہ خط بھی کہیں منہ چھپا گیا ہے، جس شخص سے خط گُم ہوا ہے وہ بھی الزام دے رہا ہے اور جو خط کا نشانہ ہے وہ بھی خط ڈھونڈ رہا ہے۔ ڈاکیا مگر کہیں مُنہ چھپا کر ہنس رہا ہے اور قوم خط کے پیچھے ’حقیقی آزادی‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک سی رہی ہے۔ بقول عاصمہ شیرازی دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ وہ جو چلمن سے لگے بیٹھے ہیں وہ چھپ چھپ کر ملتے بھی ہیں اور سرِعام کوسنے بھی دے رہے ہیں، گویا پرانے دن اور پُرانی محبتوں کے واسطے اور ظالم محبوب قدموں میں گرانے کے لیے وار بھی جاری، چوکیدار سے شکوے بھی جاری ہیں اور اسے دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ انقلاب چند دنوں میں پھر سڑکوں پر ہو گا اور حقیقی آزادی کا نعرہ بھی گونجے گا مگر جن سے عوام کو حقیقی آزادی چاہیے، اُن کے نیوٹرل ہونے اور ساتھ نہ دینے کے طعنے بھی منشور کا حصہ بن رہے ہیں۔ اب کی بار یہ خواہش شدید تر ہے کہ نیوٹرل مداخلت کریں اور صرف امر بالمعروف کا ساتھ دیں جو بقول خان صاحب کے صرف تحریک انصاف ہی ہے۔
اب جب وقت کا پہیہ اُلٹا چل پڑا ہے اور حالات کی گاڑی کو ریورس گیئر لگ چکا ہے تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جانے والا جاتے جاتے تمام سلسلے توڑ رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور بار بار کے تجربوں نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس سے طاقت کے مراکز بھی بچ نہیں پائے۔ اب یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک دوبارہ پٹڑی پر لا کر گذشتہ سٹاپ پر واپس لے جایا جائے، کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک یعنی یادداشت سے وائرس لگی فائلیں ڈیلیٹ اور سسٹم ’ان ڈو‘ کیا جائے، مداخلت کے باب کو ختم کر کے آگے بڑھا جائے۔ یہ اچھی خواہش تو ہے لیکن سسٹم میں موجود مبینہ ہیکرز اس پراسس کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ سسٹم میں غیر آئینی سیاسی مداخلت کے کم و بیش 77 سال صرف ایک کلک سے ’ان ڈو‘ نہیں ہو سکتے جب تک کہ نظام کو آئین کی بنیادوں پر کھڑا نہ کیا جائے، عدالتیں صحیح معنوں میں آزاد نہ ہوں، طاقتور کے لیے قانون الگ اور کمزور کے لیے الگ نہ ہو۔ قانون و انصاف شخصیت اور حیثیت دیکھ کر عمل میں نہ آئے تو پھر سسٹم اَن ڈو ہو گا۔ اب جبکہ ادارے نے بڑی بیٹھک میں یہ فیصلہ کر لیا کہ سیاست میں مداخلت نہیں ہو گی اور اپنی آئینی حدود میں کام کیا جائے گا تو ادارے کو اپنے اس عہد پر قائم بھی رہنا ہو گا چاہے اسے سیاست میں مداخلت پر کتنا ہی کیوں نہ اکسایا جائے۔