غیر سیاسی ہونے کی دعویدار جنرل باجوہ کتنے سیاسی ہیں؟
چھ برس تک اپنے عہدے سے چمٹ کر دو وزرائے اعظم فارغ کروانے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں زور دے کر بار بار کہا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم اگر غور کیا جائے تو موصوف کی ساری تقریر ہی سیاسی تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فوج گھٹنوں گھٹنوں سیاسی دلدل میں دھنس چکی ہے۔
جنرل قمر باجوہ نے یوم دفاع کی ایک تقریب خطاب کرتے ہوئے یہ بات دہرائی کہ اب فوج غیرسیاسی ہو گئی ہے اور یہ فیصلہ فوجی قیادت نے گذشتہ برس فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد کیا تھا کہ آئندہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ انھوں نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ 70 برس سے فوج کی سیاست میں مداخت رہی ہے جو کہ نہ صرف غیرآئینی ہے بلکہ اس سے فوج تنقید کی ضد میں بھی آتی رہی ہے۔ اس سے پہلے موجودہ آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اور فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار بھی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں فوج کے سیاست میں ملوث رہنے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں نے عمران خان کو برسر اقتدار لانے کا جرم قبول کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ اب فوج اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے غیر سیاسی ہو چکی ہے۔
ایسے میں بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا فوجی قیادت اس اعلان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے واقعی غیر سیاسی ہو چکی ہے یا اسنے صرف عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کی حد تک سیاست سے دوری اختیار کی ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا یے جنرل باجوہ نے اس عزم کو دہرایا ہے کہ اب فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ اگر غور کیا جائے تو انکی پوری تقریر ہہ سیاسی تھی۔ ناقدین کا کہنا یے کہ سیاست میں فوج کا کردار راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے تمام تر اعلانات اور دعووں کے باوجود فوج اب بھی سیاسی کردار ادا کر رہی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ فوج کے لیے یکدم غیر سیاسی ہو جانا ممکن نہیں اور اسے سیاست سے نکالنے کے لئے بھی کچھ عرصہ سیاست میں ملوث رہنا پڑے گا۔ جنرل باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں جن شعبوں میں فوج کے کردار کا ذکر کیا ہے وہ دراصل سیاسی امور سے متعلقہ ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ سیاسی امور اور فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔
واضح رہے کہ جنرل باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ‘ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ، فیٹف کے نقصان ہوں یا فاٹا کا انضمام، سرحد پر باڑ لگانا یا قطر سے سستی گیس منگوانا یا دوست ملکوں سے قرض کا اجرا ہو یا کووڈ کا معاملہ، سیلاب کے دوران امدادی کام ہو یا کچھ اور فوج نے ہمیشہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کیا ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا یے کہ اپنے الوداعی خطاب میں فوج کے غیر سیاسی ہونے ہونے کا دعوی کرنے والے جنرل باجوہ اپنے آخری دنوں میں بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آئے اور اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کے لیے پی ڈی ایم کی حکومت پر دباؤ ڈالتے رہے۔ انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر کی ایڈیٹر انجم ابراہیم کے خیال میں جنرل باجوہ کی جانب سے ریٹائرمنٹ پر کی جانے والی تقریر درست تصویر نہیں دکھا سکتی۔ انکا کہنا تھا کہ اصل صورتحال نئے آرمی چیف کی جانب سے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سامنے آئے گی۔ ان کے مطابق نئے آنے والے فوجی سربراہ اپنی مرضی سے اپنی ٹیم تشکیل دیں گے اور بڑے پیمانے پر تقرریاں اور تبادلے بھی ہوتے نظر آئیں گے، جس کے بعد پتا چلے گا کہ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ جنرل قمر باجوہ کی نظر میں فوج پر تنقید کی بڑی وجہ ’گذشتہ 70 سال میں فوج کی سیاست میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی لیے پچھلے سال فروری میں کافی سوچ و بچار کے بعد فوج نے فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ ‘میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں تاہم اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنے کے بجائے چند حلقوں نے آرمی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر بہت غیر شائستہ زبان کا استعمال کیا۔’ انھوں نے کہا کہ ‘فوج نے تو اپنا کیتھراسس شروع کر دیا ہے مجھے امید ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔ ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہئے۔
سینئر صحافی طلعت حسین کا کہنا ہے کہ قمر باجوہ نے اپنے چھ برس میں سے چار بھرپور سیاسی مداخلت کے گزارے۔ جنرل باجوہ نے تسلیم کیا کہ وہ جنوری 2022 تک سیاسی تھے لیکن پھر فروری 2022 میں غیر سیاسی ہو گئے۔ طلعت حسین کے مطابق جنوری 2021 سے قبل تحریک انصاف کہتی تھی کہ فوج نیوٹرل ہے جبکہ دیگر جماعتیں ان کے سیاسی کردار پر انگلیاں اٹھاتی تھیں، اب تحریک انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ فوج سیاسی ہو گئی ہے۔ فوج کو اب غیرسیاسی ہونے کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق اب ریٹائرمنٹ کے قریب ان کی تقریر روایتی ہے اب جو کرنا ہے نئے فوجی سربراہ نے ہی کرنا ہے۔ ان کے خیال میں جنرل باجوہ کے خطاب میں نئے آنے والوں کے لیے مشورے ہیں۔ طلعت کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والوں کا لہجہ تلخ ہے اور اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا مگر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ کون لوگ ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ سنہ 2018 کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور سنہ 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔’ انھوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ‘ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہو گا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ رائے عامہ احترام کا نام ہے۔
ناقدین کے مطابق سچ تو یہ ہے کہ یہ سب سیاسی نوعیت کے الزامات ہیں اور کوئی اتنے غلط بھی نہیں۔ یاد رہے کہ اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم 2018 کے الیکشن میں عمران خان کو کامیاب کروانے میں ایجنسیوں کا رول تسلیم کرچکے ہیں، لہٰذا جنرل باجوہ کے اس دعوے کی نفی ہو جاتی ہے کہ عمران سلیکٹڈ نہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں غیر سیاسی ہو جانے کا بیانیہ اپنا کر فوج دراصل سیاست ہی کر رہی تھی۔
نون لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے آرمی چیف کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 2008 میں جنرل کیانی نے اعلان کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہو گئی ہے، اسکے بعد تمام افسران کو سرکاری محکموں سے واپس بلا لیا گیا تھا۔ ان کے مطابق سابق آرمی چیف راحیل شریف کے دور کے اختتام پر یہ پالیسی ایک بار پھر تبدیل ہوتی نظر آئی۔
افنان کے مطابق سیاسی امور میں عدم مداخلت لی پالیسی تب ہی تسلسل سے آگے بڑھے گی جب اسے ہر سطح پر لے جایا جائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے ’ٹرکل ڈاؤن‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے وضاحت کی کہ جب کاکول میں کیڈٹس کو یہ پڑھایا جائے گا کہ فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے ملک کا بہت نقصان ہوا ہے تو پھر شاید آئندہ ایسی مداخلت کا رستہ بند ہو سکے۔
آرٹی ایس سے متعلق بات کرتے ہوئے سینیٹر افنان اللہ نے بتایا کہ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ آر ٹی ایس بیٹھا تھا، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ ان کے مطابق سب حقائق سامنے ہیں کہ ہمیں نتائج والے فارم 45 نہیں دیے گئے، گنتی کے وقت ہمارے پولنگ ایجنٹ اندر موجود نہیں تھے۔ تاہم ان کے مطابق عدم اعتماد سیاسی جماعتوں نے مل کر کامیاب بنایا اور اس میں فوج کا کردار نہیں تھا۔ ان کے دعوے کے مطابق فوج کا سیاسی کردار تو تب ہوتا جب تحریک انصاف کے لوگ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجاتے۔