فیک نیوز مخالف حکومت خود فیک نیوز چلانے لگی


تحریک انصاف حکومت میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نامی کالا قانون متعارف کروانے کے لیے یہ توجیہہ پیش کر رہی ہے کہ اس قانون کا مقصد فیک نیوز یا جعلی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے۔ تاہم افسوسناک سچ یہ ہے کہ فیک نیوز ختم کرنے کی آڑ میں میں حکومت پاکستانی میڈیا کو غلام بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس متنازع قانون کو نافذ کرنے کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی حمایت حاصل کرنے کی فیک نیوز بڑی بے شرمی سے پی ٹی وی سمیت تمام سرکاری میڈیا پر نشر کر رہی ہے۔
حکومتی وزراء کی جانب سے پی ایف یو جے کے ساتھ مذاکرات کو فیک نیوز کی ایک اعلی مثال قرار دیتے ہوئے سینئر صحافی طلعت حسین کا کہنا ہے کہ بھاڑے کے جن ٹٹووں سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صحافتی برادری میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے مطمئن ہو گئی ہے، ان کا ورکنگ جرنلسٹس سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی یہ پی ایف یو جے کے نمائندے کہلائے جا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یا پی ایف یو جے پاکستان کی تمام رجسٹرڈ صحافی تنظیموں کی متفقہ نمائندہ جماعت ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی جارہی ہے اور صحافیوں کو درپیش مسائل اور مطالبات کے حق میں ملک گیر احتجاجی مظاہرے بھی پی ایف یو جے کی جانب سے آرگنائز کیے جاتے ہیں۔ پی ایف یو جے نے نے پاکستان میں ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے اور باقاعدہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پی ایف یو جے کی قیادت نے حکومت کو یہ بل کسی بھی صورت میں نافذ کرنے کی صورت میں ملک گیر احتجاج کے ارادوں سے بھی آگاہ کر رکھا ہے۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات میاں فرخ حبیب کی جانب سے پی ایف یو جے کی قیادت کو اعتماد میں لیے جانے سے متعلق سرکاری میڈیا پر چلنے والی بے بنیاد خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصرزیدی نے کہا ہے کہ وہ وفاقی وزیر فواد چوہدری اور انکے نائب فرخ حبیب کے جھوٹے دعووں کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ دونوں وزراء جعلی خبریں پھیلانے کے مشن پر ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار نے کہاکہ دونوں وزراء کا کام پریس کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی کافروغ ہونا چاہیے، مگر یہ دونوں وزراء جعلی خبروں اور تیسرے درجے کے پروپیگنڈا حربوں کے ذرائع بن گئے ہیں۔
سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ حکومتی وزراء مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانون پر مدد حاصل کرنے کے لیے جس نام نہاد صحافی باڈی سے ملاقات کے بعد سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں وہ ایک جعلی تنظیم ہے جسکا کوئی وجود نہیں۔ وفاقی وزراء اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں مگر اس کے باوجود پی ٹی وی اور دیگر ذرائع سے یہ منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانون پر اعتراض ختم ہو گیا ہے اور صحافی برادری کے سب تحفظات دور کر دیئے گئے ہیں۔
اس معاملے پر سید طلعت حسین کہتے ہیں کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانون بارے حکومتی وزراء کی جانب سے جعلی خبریں پھیلانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں کس بڑے پیمانے پر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اس کام کے لئے ریاستی وسائل کا کس طرح بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ طلعت حسین کہتے ہیں کہ حکومت وقت اپنے اس مشن کو مکمل کرنے کے لئے لیے ایسی صحافتی تنظیموں کو پرموٹ کرنے جا رہی ہے جو کہ صحافیوں کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ اب ریاستی وسائل خرچ کر کے کے ایسے نام نہاد صحافیوں کو آگے لایا جائے گا جنہوں نے ماضی میں میں میڈیا کی آزادی کے لیے نہ تو کبھی جدوجہد کی اور نہ ہی ان کا خاص صحافتی بیک گراؤنڈ ہے۔ دراصل حکومت میڈیا مالکان اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قانون کو مسترد کیے جانے کے بعد یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ یہ قانون میڈیا سے متعلق افراد تعداد میں کس قدر مقبول ہے اور اسی مقصد کے لئے لیے دو نمبر صحافیوں اور جعلی تنظیموں کو پرموٹ کیا جارہا ہے۔
خیال رہےکہ میڈیا کو دبانے کی حکومتی کوششوں کے خلا ف صحافیوں نے احتجاج کے ساتھ ساتھ عدالت عظمی کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صحافیوں کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے از خود نوٹس لیا تاہم اس بینچ کی جانب سے کوئی فیصہ سنائے جانے سے پہلے ہی قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے از خود نوٹس لینے کے حق کی تشریح کرنے کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے یعنی تکنیکی بنیادوں پر معاملے کا رخ بدل دیا ہے۔ لہازا اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت کتنا اہم مسئلہ بن چکا ہے اور اسکا حصول کتنا مشکل ہے۔

Related Articles

Back to top button