ماضی میں اثاثے گروی رکھنے کے ناقد کپتان کا بڑا یو ٹرن


ماضی میں نواز شریف حکومت کو ملکی اثاثے گروی رکھنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والی کپتان حکومت اب خود وہی کام کرنے پر تنقید کی زد میں آ گئی ہے۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے سکوک بانڈز کے ذریعے ملک کے کئی ہوائی اڈے اور موٹرویز کو گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اسلامی اصولوں سے مطابقت رکھنے والے سکوک بانڈ کی ذریعے پیسہ حاصل کرنے کا مقصد ملک کے بجٹ خسارے کو سہارا دینا ہے۔ لیکن یہ پہلی حکومت نہیں ہے جو سکوک بانڈ کی ذریعے قرضہ حاصل کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ادوار میں بھی سکوک بانڈز کے ذریعے قومی اثاثے گروی رکھ کر قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔
عمران خان نے نواز لیگ کے دور میں اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن اب وہ خود اس پالیسی کے ذریعے قرضہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق حکومت اگلے مالی سال میں 1200 ارب روپے یعنی 3.5 ارب ڈالر کے مالی وسائل دیگر ذرائع سے حاصل کرنا چاہتی ہے جس میں سے ایک ذریعہ سکوک اجارہ بانڈز کی مدد سے رقم کا حصول بھی شامل ہے۔ دستاویز کے مطابق حکومت جن اثاثوں کے بدلے قرض حاصل کرنا چاہتی ہے ان میں لاہور کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ شامل ہیں۔اسی طرح نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام چلنے والے ان موٹرویز اور ہائی ویز کے بدلے میں بھی قرض لینا چاہتی ہے جو ابھی تک گروی نہیں رکھے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سنہ 2008 سے لے کر آج تک 32 بار سکوک بانڈز جاری کیے گئے اور حکومت نے اس کے ذریعے پندرہ سو ارب روپے سے زائد کا قرض حاصل کیا۔ ماضی میں جن نمایاں اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض حاصل کیا گیا ان میں موٹروے ایم ون، ایم ٹو اور ایم تھری شامل ہیں۔ انکے علاوہ گروی جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی کو بھی گروی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سنہ 2008 کے بعد سے اب تک وفاق میں حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف تینون حکومتوں نے سکوک بانڈز جاری کر کے قرض حاص کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔
اسی طرح پاور جنریشن اینڈ ڈسٹربیوشن کمپنیوں کے اثاثے بھی گروی رکھ کر قرض حاصل کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ برس حکومت نے مئی 2020 میں اجارہ سکوک بانڈ جاری کر کے دو سو ارب روپے کا قرض حاصل کیا تاکہ پاور سیکٹر کے بقایا جات ادا کیے جا سکیں۔ دراصل سکوک بانڈ قرضہ لینے کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں قرض حاصل کرنے کے لیے ایک فزیکل اثاثہ گروی رکھنا پڑتا ہے۔ یہ قرض ایک فکسڈ ریٹ پر لینا پڑتا ہے جس کے عوض اثاثہ گروی رکھا جاتا ہے۔ قرض دینے والا پھر یہ اثاثہ حکومت کو مارکیٹ ریٹ پر لیز کر دیتا ہے۔ ریسرچ انسٹیوٹ اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چئیرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے بتایا کہ اسلامی بینکاری میں فکسڈ شرح سود نہیں ہوتی تاہم سکوک بانڈ میں مذہبی سکالرز نے اس کی منظوری دی ہے۔انھوں نے بتایا کہا سکوک بانڈ میں ایک اثاثہ گروی رکھ کا قرضہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بانڈ حکومت کی جاری کرتی ہے۔انھوں نے یہ کہا سکوک بانڈ اس لیے زیادہ کامیاب ہوتا ہے کہ اسلامی بینکوں کے پاس پیسہ بہت ہے تاہم ان کے پاس سرمایہ کاری کے ذرائع کم ہوتے ہیں اس لیے وہ اس طرح کے معاملات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
جب پوچھا گیا کہ سکوک بانڈز کے ذریعے قرضہ حاصل کرنے کے لیے اثاثے کیسے گروی رکھے جاتے ہیں تو ماہر معیشت محمد سہیل نے بتایا کہ ایسا قرضہ دو طریقے سے لیا جاتا ہے جس میں ایک روایتی ذریعہ اور دوسرا اسلامک ذریعہ ہے۔’ روایتی ذریعے میں حکومت کی ضمانت کی کافی ہوتی ہے لیکن سکوک میں قرض ایک اثاثے کے عوض دیا جاتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت کے اصولوں کے تحت قرض کسی اثاثے کے بدلے میں دیا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا دنیا بھر میں سکوک بانڈ اسی طریقہ کار کے مطابق چلتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں برسر اقتدار رہنے والی جماعتوں کی جانب سے قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کی پالیسی پر ان جماعتوں کا اپنا موقف حکومت اور اپوزیشن میں مختلف رہا ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے مسلم لیگ نواز کو قومی اثاثے گروی رکھنے اور قرض حاصل کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجرا کے لیے اثاثے گروی رکھنے کی منظوری کے بعد مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابقہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے حکومت کا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اب نواز شریف کے بنائے ہوئے اثاثوں، موٹر ویز اور ہوائی اڈوں کو گروی رکھ کر حکومت سکوک بانڈز فروخت کر کے قرض حاصل کرے گی۔
مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل اور اس کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے ہماری حکومت میں سکوک بانڈز کے جاری کرنے پر بہت سخت مخالفت کی تھی کہ یہ قومی اثاثے گروی رکھ کا قرض حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں تحریک انصاف حکومت کے سکوک بانڈ جاری کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک پہلو بہت تشویشناک ہے کہ یہ قرض لینے کی ایک اندھی پالیسی پر کاربند ہیں جس نے معیشت کو برا حال کر دیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت ٹیکسوں کی وصولی تو ڈھائی سالہ اقتدار میں نہیں بڑھا سکی لیکن اس نے ریکارڈ قرض حاصل کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ قرض حاصل کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن اس کے ذریعے کیا منصوبے لگائے جاتے ہیں وہ اصل میں دیکھنا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے قرضہ لیا تو پاکستان کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ رکھا اور ملک کو توانائی کے شعبے میں خود کفیل کیا یعنی اس قرض کو پیداواری شعبے میں لگایا۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کوئی ایک کام دکھائے کہ جس میں قرض کے ذریعے کوئی بڑا ترقیاتی کام کیا گیا ہو۔‘

Related Articles

Back to top button