نئے آرمی چیف کے بعد بھی اہم فیصلے فوج ہی کرے گی


نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی اسلام آباد نئے آرمی چیف کے نام کے حوالے سے افواہوں کی زد میں ہے اور حکومت اور اپوزیشن اس معاملے پر آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو بھی آرمی چیف آ جائے، سویلینز کے حالات نہیں بدلنے چاہے کتنی ہی حکومتیں بدل جائیں کیوں کہ فیصلہ سازی کا اصل اختیار فوج کے پاس ہے۔

بی بی سی کے لئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ کتنے لوگوں کو تب معلوم تھا یا اب معلوم ہے کہ پاکستانی بری فوج کے پہلے سربراہ جنرل سر فرینک والٹر میسروی کا ملازمتی دورانیہ صرف چھ ماہ تھا اور ان کی جگہ لینے والے جنرل ڈگلس گریسی تین برس دو ماہ تک بری فوج کے سربراہ رہے۔ کشمیر سے متعلق حکومت کی عسکری پالیسی پر عمل درآمد سے صاف انکار کے باوجود گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنرل گریسی کو سبکدوش نہ کر پائے۔ مگر دیسی حکومت قائل ہو گئی کہ ریاستی فیصلوں پر بلا چوں و چرا عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ اگلا کمانڈر انچیف بھی دیسی ہونا چاہیے۔ جنرل گریسی نے سبکدوش ہونے سے پہلے اپنے چار ممکنہ جانشینوں کی جو فہرست پیش کی ان میں سب سے سینئر نام میجر جنرل اکبر خان کا تھا۔ اس کے بعد میجر جنرل اشفاق المجید، میجر جنرل افتخار خان اور میجر جنرل این ایم رضا تھے۔ جنرل گریسی میجر جنرل افتخار خان کو اپنا جانشین بنانے کے حق میں تھے مگر وہ ایک پراسرار فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جنرل اکبر خان نے 1948 میں جموں کشمیر میں ہونے والے آپریشن جبرالٹر میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مگر شبہ تھا کہ ان کے سیاسی عزائم بھی ہیں۔ جبکہ میجر جنرل اشفاق المجید کا تعلق بنگال سے تھا۔ایسے موقع پر سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا کام آئے جنھوں نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو قائل کیا کہ میجر جنرل ایوب خان سیدھا سادہ پروفیشنل سولجر ہے اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے، لہٰذا اس کے نام پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے حالانکہ سنیارٹی لسٹ میں ایوب خان کا نام دور دور تک نہیں تھا۔

لیکن وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سکندر مرزا وزیرِ اعظم کو بریفنگ کے دوران یہ بتانا بھول گئے کہ ان کی سیدھے سادے ایوب خان سے کتنی گاڑھی چھنتی ہے اور خود ان کے ذہن میں بھی غیر سیاسی ایوب خان کی مدد سے مستقبل کا کوئی سیاسی منصوبہ پنپ رہا ہے۔ چنانچہ ایوب خان کو اپریل 1951 میں پہلا دیسی کمانڈر انچیف بننے کا اعزاز ملا۔ لیاقت علی خان کے راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران قتل ہو جانے کے بعد نوکر شاہی کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔ گورنر جنرل ناظم الدین کو وزیرِ اعظم بنا کر غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا گیا اور پھر وزیرِ اعظم ناظم الدین کو ایک کمزور قوتِ فیصلہ والی شخصیت مشہور کر کے ان کی جگہ امریکہ پلٹ بنگالی سیاستداں محمد علی بوگرہ کو وزیرِ اعظم مقرر کیا گیا۔ بوگرہ نے امریکہ کی خواہش پر پاکستان کو سرد جنگ کا حصہ بنایا اور سکندر مرزا کو اپنا وزیرِ داخلہ مقرر کیا۔ تاریخ میں پہلی بار یہ معجزہ بھی ہوا کہ ایک حاضر سروس کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزارتِ دفاع کا قلمدان سونپ دیا گیا اور یہ مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہو گئی کہ کمانڈر انچیف ایوب خان وزیرِ دفاع ایوب خان کے ماتحت بھی تھے اور بطور وزیرِ دفاع کمانڈر انچیف کے باس بھی تھے۔

وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ جب فالج زدہ غلام محمد کو ڈنڈہ ڈولی کر کے کراچی کے گورنر جنرل ہاؤس سے ان کی ذاتی رہائش گاہ پر منتقل کر دیا گیا تو سکندر مرزا گورنر جنرل ہو گئے اور ایوب خان کو بطور کمانڈر انچیف توسیع در توسیع ملتی گئی۔ ایک کے بعد ایک وزیرِ اعظم آتا رہا مگر یہ جوڑی سلامت رہی۔ 1956 کا آئین نافذ ہونے سے بس یہ فرق پڑا کہ گورنر جنرل صدر کہلانے لگا۔ مگر تسلی پھر بھی نہیں ہوئی۔ اس جوڑی کو بے اختیار وزرائے اعظم بھی کھٹکنے لگے۔ کمانڈر انچیف ایوب خان جنھوں نے گذشتہ چھ برس کے دوران مرزا کی اتالیقی میں تمام رموزِ مملکت ازبر کر لیے تھے، انھوں نے انتہائی مہارت سے سکندر مرزا جیسے گرگِ باران دیدہ کو ملکی استحکام کے نام پر لولا لنگڑا پارلیمانی نظام لپیٹ کر مردِ آہن بننے کی پٹی پڑھا کے شیشے میں اتارا۔ موصوف نے استادِ محترم سکندر مرزا کے ہاتھوں مارشل لا لگوایا۔ خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے اور جب سکندر مرزا کو احساس ہوا کہ سارے اختیارات تو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے ہاتھ میں ہیں تب تک مات ہو چکی تھی۔
ایوب نامی شاگرد نے اسکندر نامی استاد کو آخری دھوبی پٹکا یوں مارا کہ مارشل لا لگانے کے صرف 20 دن بعد ہی مسلح فوجی ایوان صدر روانہ کر کے پروانہِ سبکدوشی پر دستخط کروا لیے گئے۔ اسکے بعد ایوب نے اپنے استاد سکندر مرزا کو پہلی پرواز سے لندن روانہ کر دیا۔ یوں پاکستان باضابطہ طور پر ’صدارتی کمانڈر انچیفی‘ کے دور میں ایسا داخل ہوا کہ آج تک نظامِ ریاست کی ٹرین ایک لامتناہی بیابان میں چلتی چلی جا رہی ہے۔ آج بھی ڈبوں کے مسافر چڑھتے اترتے رہتے ہیں مگر انجن وہی 64 برس پرانا ہے۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ معلوم نہیں پھر کیوں ہر چار برس بعد سیاسی مسافروں میں بنا مطلب کے تھرتھلی مچ جاتی ہے کہ کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے اور کون ابھی نہیں جا رہا ہے۔ بھائی تمہارا ان معاملات سے کیا لینا دینا۔ اتنی پھرتیاں کاہے کو دکھاتے ہو اور بے فضول تھکتے ہو؟تمہارا کام تو بس اتنا ہے کہ جب کاغذ سامنے رکھا جائے تو شریف بہو بیٹیوں کی طرح تین بار قبول ہے قبول ہے کہو اور دستخط کر کے قلم واپس کر دو۔

Related Articles

Back to top button